کتاب: مسلمان خاندان اسلام کی آغوش میں - صفحہ 29
کے لیے جنت ہے۔‘‘[1] اور ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو سزا دو۔[2] مندرجہ بالا دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی خاندانی نظام میں ہر فرد نگران ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کا خوب احساس ہوتا ہے۔اسلامی خاندان مادر پدر آزادی کا حامی نہیں ہے اور نہ ہی بے جا سختی کی اجازت دیتا ہے۔البتہ ہر ذمہ دار کو اپنی جواب دہی کا خوف لا حق رہتا ہے، اس لیے وہ اپنی ذمہ داری سے صحیح طور پر عہدہ بر آنے کی کوشش کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’دیوث کبھی جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘‘[3] اور دیوث وہ ہے جو گھر کی عورتوں میں برائی دیکھ کر خاموش رہے۔ 5۔قدوۃ اور نمونہ:اسلامی خاندانی نظام کی ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ ہر ذمہ دار فرد دوسروں کے لیے نمونہ ہے،یعنی وہ خود عمل کرتا ہے اور اپنے ماتحتوں کو بھی عمل کی دعوت اور ترغیب دیتا ہے۔وہ یہ نہیں کرتا کہ بیوی بچوں کو تو کسی غلط کام سے منع کرتا ہے اور خود اس کا ارتکاب کرتا ہے یا پھر اپنے ماتحتوں کو کسی نیکی کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر نظر رکھتا ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللّٰهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ)[4] ’’اے ایمان والوں! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ کو سخت ناپسند ہے۔‘‘ 6۔خدمت واطاعت: اسلامی خاندانی نظام میں خدمت واطاعت کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ بیوی خاوند کی اطاعت کرے گی مگر یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے۔اولاد
[1] ۔ ترمذي، كتاب البر والصلة،باب ماجاء في النفقة علي البنات والاخوات :1916۔ [2] ۔ مسند احمد :6650۔ [3] ۔ مسند احمد :5349۔ [4] ۔ 61/الصف :203۔