کتاب: مسلمان خاندان اسلام کی آغوش میں - صفحہ 24
دیتے ہیں اور اللہ نے عورت کو بھی صلح کرنے کی ہی ترغیب دی ہے جیسا کہ آپ پہلے پڑھ چلے ہیں۔ 6۔ نکاح کو ختم کرنا شریعت میں ناپسندیدہ عمل ہے۔اللہ رب العزت میاں اور بیوی کو آ پس میں پیار، محبت، تعاون،ہمدردی اور حسن اخلاق کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہیں اور نکاح کے بندھن کوتوڑنے کی اجازت نہیں دیتے مگر یہ کہ میاں بیوی کا اکٹھے رہنا الگ الگ رہنے سے زیادہ اذیت ناک ہوجائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أبغض الحلال عند اللّٰه الطلاق)[1] ’’حلال کاموں میں سے اللہ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔‘‘ 7۔ عورتوں کو بغیر شرعی سبب کے طلاق مانگنے سے ڈرایا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے بغیر کسی(شرعی) سبب کے طلاق کا مطالبہ کیا،اس پرجنت کی خوشبو بھی حرام ہوگی۔‘‘[2] 8۔ شوہر کو تین طلاقوں کا اختیار،دراصل صلح کا موقع پیدا کرنے کے لیے ہے۔شریعت نے طلاق کا باقاعدہ طریقہ کار مقرر فرمایا ہے۔صلح کی مرحلہ وار کوششوں کے ناکام ہوجانے پر بھی حوصلہ، تدبر اور معاملہ فہمی سے کام لینا چاہیے لیکن اگرطلاق ناگزیر ہوتوخاوند طہر کی حالت میں جس میں وہ بیوی کے قریب نہ گیا ہو،ایک طلاق دے گا۔جس کے بعد عدت کے اندر رجوع ہوسکے گا کیونکہ عموماً لوگ طلاق کے بعد اپنے اور بچوں کے مستقبل کو تباہی سے بچانے کے لیے رجوع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس لیے پہلی اوردوسری طلاق کے بعد عدت کےاندر رجوع کا اختیار ہے اور بعد از عدت نکاح کا بشرط یہ کہ عورت نے کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کی ہو۔جبکہ تیسری طلاق سوچ سمجھ کر آخری فیصلہ کی غرض سے دی جائے گی۔یہ معاملہ جلد بازی اور جذبات س کام لینے والا نہیں ہے۔ اس کتاب میں یہی کوشش کی گئی ہے کہ ایک اسلامی خاندان کس طرح شریعت سے
[1] ۔ ابوداؤد، كتاب الطلاق،باب كراهية الطلاق :2178۔ [2] ۔ سنن ترمذي، كتاب الطلاق واللعان،ماجاء في المختلعات :1187۔