کتاب: مسلمان خاندان اسلام کی آغوش میں - صفحہ 23
نے اس مسئلہ میں مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا)[1] ’’اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں خوف ہو، انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑدو اور انہیں مار کی سزادو، پھر اگر وہ اطاعت کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو،بے شک اللہ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔ اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان آپس میں لڑائی کا خوف ہو تو ایک مصنف مرد کے گھر والوں میں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو۔ اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کروادے گا، یقیناً پورے علم والا، پوری خبر والا ہے۔‘‘ آیت کریمہ پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مرحلہ وار کوشش ہے، تفصیل ملاحظہ ہو۔ 1۔ خاوند کا بیوی کو سمجھانا،اس سے فائدہ نہ ہوتو 2۔ بیوی کو بستر میں الگ چھوڑنا(گھر کے اندر)، اگر اس سے فائدہ نہ ہوتو 3۔ ہلکی سختی یعنی مار،اگر اس سے فائدہ نہ ہوتو پھر 4۔ میاں اور بیوی کے خاندان کا ایک ایک معاملہ فہم شخص جو مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے،خراب نہ کرے۔جب یہ مراحل طے کرلیے جائیں اور کوئی چارہ کار نہ رہ جائے تو پھر 5۔ فقط ایک طلاق دی جائے۔ جو لوگ بغیر سوچے سمجھے طاق دے دیتے ہیں وہ کم عقل اور شرعی تعلیمات سے بے خبر ہیں یہ اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں اور اپنی بیوی اور بچوں کو بھی تباہی کے گڑھے میں دھکیل
[1] ۔ 4/النساء:35۔