کتاب: مسلمان خاندان اسلام کی آغوش میں - صفحہ 18
سے یکسر نابلد ہو۔خاوند نام کا مسلمان ہو مگر اسے اپنی بیوی کے حقوق کا خیال نہ ہو۔بیوی کانام تو اسلامی ہو مگر وہ اپنے خاوند کی اطاعت، عزت اور خدمت سے عاری ہو۔باپ کہنے کو تو مسلمان ہو مگر اسے اپنی ذمہ داریوں کا قطعاً علم نہ ہو،ماں بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتی ہو مگر اسے اپنی عظمت، مقام ومرتبہ اور ذمہ داریوں کا کوئی احساس نہ ہو۔ اسی طرح اولاد بھی مسلمان پیدا تو ہو مگر اسے اسلامی تعلیم وتربیت اور والدین کی خدمت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔یقیناً مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات سے جہالت اور دوری یورپین شیاطین کی ابلیسی سوچ کو مضبوط کرنے اور ان کے اہداف کی تکمیل کاباعث ہے۔اگر ہم اسلامی خاندانی نظام کے اصولوں سے واقف ہوں اور خاندان کا ہر فرد اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو اور اپنے حقوق وفرائض کا دائرہ کار اچھی طرح سمجھتا ہو تو ہمارا مضبوط خاندانی نظام ان شاء اللہ تعالیٰ کبھی بھی کمزور نہ پڑسکے گا،ورنہ ہم بھی تباہی کے اس غار میں اوندھے منہ جاگریں گے جس سے نکلنے کے لیے آج یورپ ہاتھ پاؤں مارتا ہوا نظر آتا ہے۔مسلمانوں کے خاندانی نظام کو دیکھ کر برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیر کو کہنا پڑا کہ اسے مسلمانوں کا نظام زکوٰۃ اور مضبوط خاندانی نظام بہت پسند ہے۔(نوائے وقت،15مئی2011) یورپ مسلم ممالک میں خاندانی نظام کو توڑنے اور فحاشی کو عام کرنے کے لیے کیوں کوشاں ہے؟اس سوال کا جواب انتہائی آسان ہے۔1991ء میں امریکی کالم نگار بین وائن برگ نے اپنی کتاب ’’پہلی عالمی قوم’‘میں وضاحت کی ہے کہ آئندہ چند برسوں کے اندر دنیا میں مسلمانوں کا اثرورسوخ پھیل جائے گا اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک مسلمانوں کا شادی کرنے کے بعد زیادہ بچے پیدا کرنا ہے، دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔(تکبیر 30 مئی 1996ء) مزید براں یہ بھی کہا گیا کہ مسلمانوں کی آبادی کو فقط خانہ جنگی،سیاست اور فیملی پلاننگ کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یورپ مسلمانوں کے فطرتی خاندانی نظام تباہ کر کے مسلم ممالک کی آبادی کو روکنا چاہتا ہے اور اس کے لیے بے پناہ وسائل اور بھاری رقوم مختص کر رہا ہے جبکہ خود آبادی بڑھانے کی فکر میں سر گرداں ہے۔کوریانے 2008ء میں