کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 79
4۔میت کی طرف سے صدقہ دیا جائے
عن عائشة أن رجلا قال للنبی صلی اللّٰه علیہ وسلم : ((إن أمی افتلتت نفسها وأراها لو تکلمت تصدقت أفأتصدق عنها؟ قال:نعم تصدق عنها)) [1]
’’سیدہ عائشہسے مروی ہے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی میری والدہ اچانک فوت ہو گئی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر انہیں بولنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرتی۔کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس کی طرف سے صدقہ کرو۔‘‘
اس حدیث سے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔اس صدقہ کا اجر و ثواب دینے والے اور میت دونوں کو پہنچتا ہے۔تمام فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ میت کی طرف سے نفلی صدقہ کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔اگر میت کے ذمہ مالی حقوق ثابت ہو جائیں تو انہیں ترکہ میں سے ادا کرنا واجب ہے خواہ میت نے اس کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔جیسا کہ زکوٰة، نذر، کفارہ یا پھر کسی فرد کا قرض ہو تو وہ بھی چکانا ضروری ہے۔اگر میت کوئی ترکہ نہ چھوڑے تو ورثاء کے ذمہ قرض کی ادائیگی لازم نہیں ہے لیکن ورثاء یا دیگر افراد کے لئے بہتر ہے کہ وہ اسے ادا کریں۔ [2]
عن أبی هریرة أن رسول اللّٰه قال: ((إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة: إلا من صدقة جاریة أو علم ینتفع به أو ولد صالح یدعو له)) [3]
[1] صحیح البخاری،کتاب الوصایا: 2760، صحیح مسلم: 12، 1004
[2] امام نووی نے شرح مسلم میں یہ تشریح فرمائی ہے:11/84
[3] صحیح مسلم ،کتاب الوصیة، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاته:3/1255