کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 78
یعنی مومن کی جان کو اس کے معزز مقام سے روک لیا جاتا ہے یہ بھی کہا گیا کہ اس کا معاملہ موقوف کر دیا جاتا ہے اس کے بارے میں نجات یا ہلاکت کا فیصلہ، اس وقت تک نہیں کیا جاتا جب تک اس کا قرض ادا نہیں ہو جاتا۔ [1] عبد اللہ بن عمرو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان روایت کرتے ہیں: ((القتل فی سبیل اللّٰه یکفر کل شی إلا الدین)) [2] ’’اللہ کے راستے میں شہید ہو جانا قرض کے علاوہ ہر گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے۔‘‘ 3۔میت کی وصیت اور وعدے کو پورا کیا جائے شرید بن سوید الثقفی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی کہ میری والدہ نے وصیت کی ہے کہ اس کی طرف سے لونڈی آزاد کی جائے اور میرے پاس ایک حصے والی لونڈی ہے۔کیا یہ بات میرے لئے کافی ہے کہ میں اسے والدہ کی طرف سے آزاد کر دوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((ائتنی بها فقال لها النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم : من ربك؟ قالت اللّٰه قال من أنا؟ قالت: أنت رسول اللّٰه ۔قال فأعتقها فإنها مؤمنة)) [3] ’’اسے میرے پاس لے آؤ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تیرا رب کون ہے؟ اس نے کہا اللہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسے آزاد کر دو۔یہ مومنہ ہے۔‘‘
[1] تحفةالاحوذی:4/193 [2] صحیح مسلم ، کتاب الإمارة، باب من قتل فی سبیل الله کفرت خطایاه إلا الدین 1886 [3] سنن نسائی:6/252 کتاب الوصایا، بابفضل الصدقة علی المیت