کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 75
عوف کا ہاتھ پکڑا اور اپنے بیٹے ابراہیم کی طرف چل پڑے تو دیکھا کہ وہ جان کنی کے عالم میں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی گود میں لے لیا اور رونے لگے۔عبد الرحمن بن عوف نے عرض کی: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو رہے ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں رونے سے منع نہیں فرماتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا ولکن نهیت عن صوتین أحمقین فاجرین، صوت عند مصیبة خمش وجوه وشق جیوب ورنّة الشیطان)) [1] ’’نہیں مجھے دو گناہ گار آوازوں سے روکا گیا ہے۔مصیبت پر آواز نکالنے چہرے کو نوچنے، کپڑے پھاڑنے اور شیطان کی طرح چیخ و پکار کرنے سے۔‘‘ ایک اور روایت میں یوں ہے: فأخذ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إبراهیم فقبّله وشمّه ثم دخلنا علیه بعد ذلك وإبراهیم یجود بنفسه فجعلت عینا رسول اللّٰه تذرفان، فقال له عبد الرحمن بن عوف وأنت یا رسول اللّٰه ؟ فقال:یا ابن عوف إنها رحمة ثم أتبعها بأخری فقال صلی اللّٰه علیہ وسلم : «إن العین تدمع والقلب یحزن، ولا نقول إلا ما یرضی ربنا،وإنا بقراقك یا إبراهیم لمحزونون)) [2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کو پکڑا، بوسہ لیا، ساتھ لگایا پھر جب ہم آپ کے پاس آئے تو ابراہیم جان کنی کے عالم میں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔عبد الرحمان بن عوف نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ (رو رہے ہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے
[1] جامع ترمذی:1011 [2] صحیح بخاری:1302، صحیح مسلم ،کتاب الفضائل، باب رحمته وتواضعه15، 62، ابوداؤد: 3126