کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 70
تلقین کریں۔ اسی طرح میت پر تیجا، ساتواں، دسواں، چالیسواں یا سالانہ برسی کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ سب جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے۔اگر اس میں ذرا بھی خیر یا دین داری ہوتی تو صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ معاملات ضرور کرتے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا سکھایا نہیں اور صحابہ کرام نے عمل کیا نہیں تو ہمیں بھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ فوتگی پر کھانا صرف گھر والوں کے لئے ہونا چاہئے۔تعزیت کے لئے آنے والوں یا محلہ داروں کے لئے کھانے کی ضرورت نہیں۔اس موقع پر لوگ عموماً شہرت اور نمود و نمائش کے لئے اچھے کھانے پکاتے ہیں جس پر باقاعدہ فخر کیا جاتا ہے۔کھانا پکانے والوں کے لئے بھی عجیب و غریب قسم کے خود ساختہ اصول اور قوانین مختلف طریقوں سے مختلف علاقوں میں رائج ہیں۔ بہت سے لوگ استطاعت نہ رکھنے کے باوجود ان خود ساختہ رسموں کو نبھانے کے لئے قرض لے کر بھی کھانا پکاتے ہیں۔اس طرح یہ سنت کے مخالف اور اخلاص کے بغیر محض بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔میت کے اہل خانہ کے لئے کھانا تیار کرنے کی ترغیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔حضرت جعفر کی شہادت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔آل ِجعفر کے لئے کھانا تیار کرو ،کیونکہ انہیں غم پہنچا ہے۔مقصد یہ ہے کہ اہل خانہ اپنے غم کی وجہ سے کھانا تیار نہیں کر سکتے اب کھانا مہیا کرنا دیگر لوگوں کی ذمہ داری ہے۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میت کے گھر والوں کے لئے تلبینہ (جو اور شہد کو ملا کر تیار کیا جانے والا کھانا) تیار کرنے کے لئے کہتیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل فرماتی ہیں: