کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 40
2۔مخصوص اوصاف کے حاملین پر لعنت کرنا جیسا کہ یہودو نصاری اور مجوسیوں پر لعنت ہو۔ 3۔تیسری صورت یہ ہے کہ کسی مخصوص فرد پر لعنت کی جائے اور شریعت نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ لعنت اسی صورت میں کی جائے گی جو صورت مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور لے جانے والی ہو۔کفر، بدعت، فسق، یہود و نصاری وہ صفات ہیں جو ان پر رہتے ہوئے مرے گا جہنم میں جائے گا۔کیونکہ ان صفات کے حاملین کا یہی انجام ہے۔البتہ کسی مخصوص انسان پر لعنت کرنا اس لئے جائز نہیں کہ ہمیں معلوم نہیں ہے وہ کفر پر مرے گا یا ایمان پر ایک کافر یا مجوسی کسی بھی وقت توبہ کر کے اسلام قبول کر سکتا ہے لہٰذا لعنت صفت پر ہو گی فرد معین پر نہیں۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے۔فلاں شخص پر لعنت ہو کیونکہ کسی بھی فرد کے خاتمہ بالخیر یا خاتمہ بالشر کا ہمیں علم نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ ﴾( غافر: 48) ’’یقیناً اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے ۔‘‘ عہد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک شراب پینے والے پر لعنت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا تلعنوه، فواللّٰه ما علمت إلا أنه یحب اللّٰه ورسوله)) ’’اس پر لعنت نہ کرو اللہ کی قسم! میں تو یہی جانتا ہوں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتاہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کبیرہ گناہ کے مرتکب پر لعنت کرنے سے منع فرمایا ہے۔تو صغیرہ گناہ کے مرتکب پر کیسے لعنت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لاتسبوا الأموات فتؤذوا الاحیاء)) [1]
[1] صحیح الجامع :1982