کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 39
کے ادب کا لحاظ نہیں، اس کا اپنی زبان پر کنٹرول نہیں، اس پر اس کے دل و دماغ نہیں بلکہ زبان کا غلبہ ہے۔جو اکثر تباہ کر دیتی ہے۔
سچ ہی کسی نے کہا ہے:
احذر لسانك أیها الإنسان لا يلدغنك إنه ثعبان
’’اے انسان اپنی زبان سے بچ کر رہ ،یہ اژدھا ہے کہیں تمہیں ڈس نہ لے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إذا أصبح ابن آدم فإن الاعضاء تکفر اللسان وتقول له:اتق اللّٰه فینا فإن استقمت استقمنا وإن اعوججت اعوججنا))
(امام ترمذی نے ابو سعید سے روایت کیا ہے)
’’جب انسان صبح کرتا ہے تو تمام اعضاء زبان کو ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر، اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تم نے خرابی کی تو ہم بھی خراب ہو جائیں گے۔‘‘
زبان دراصل دل کی نمائندگی کرتی ہے۔کسی شخص کے الفاظ اور گفتگو سن کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ شخص صالح ہے یا فاسد۔مسلمان اپنی زبان کو گالم گلوچ اور لعن طعن سے محفوظ رکھتا ہے۔اگر وہ اس کی حفاظت نہ کر سکے تو وہ جہنم میں جائے گا اس طرح لعنت کرنے والا قیامت کو سفارش اور شہادت سے محروم کر دیا جائے گا۔
لعنت کرنے کی جائز صورتیں
عمومی طور پر لعنت کرنا درست نہیں البتہ جہاں جہاں شریعت نے اجازت دی ہے وہاں لعنت کی جا سکتی ہے۔مثلاً کفر، بدعت اور فسق وغیرہ ان پر لعنت کرنے کی تین صورتیں ہیں۔
1۔ہم کہہ سکتے ہیں: اللہ کی لعنت ہو کافروں پر، بدعتیوں پر اور فاسقوں پر ۔