کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 27
صبغة ثم یقال: یا ابن آدم هل رأیت خیرا قط؟ هل مرّ بك نعیم قط؟ فیقول: لا واللّٰه یا رب و یؤتی بأشد الناس بؤسا فی الدنیا من أهل الجنة فیصبغ فی الجنة فیقال له، یا ابن آدم هل رأیت بؤسا قط؟ هل مرّ بك شدة قط؟ فیقول: لا واللّٰه یا رب ما مرّ بی بؤس قط ولا رأیت شدة قط)) [1]
’’قیامت کے دن ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جسے دنیا میں سب سے زیادہ نعمتیں دی گئی اور وہ اہل نار میں سے ہو گا۔اسے جہنم میں ایک غوطہ دیکر پوچھا جائے گا۔اے ابن آدم کیا تم نے کبھی خیر دیکھی تھی؟کیا تمہارے پاس سے کسی نعمت کا کبھی گزر ہوا تھا؟ تو وہ کہے گا نہیں۔اللہ کی قسم اے میرے رب۔اسی طرح دنیا میں سب سے تنگ دست شخص کو لایا جائے گا جو اہل جنت میں سے ہو گا۔اسے جنت میں ایک غوطہ دیکر پوچھا جائے گا۔اے ابن آدم کیا تم نے کبھی تنگی، پریشانی دیکھی تھی؟ کیا تمہارے پاس سے کبھی کوئی سختی گزری تھی؟ تو وہ کہے گا۔نہیں اللہ کی قسم اے میرے رب کبھی کوئی تکلیف میرے پاس سے نہیں گزری اور نہ میں نے کبھی سختی دیکھی ہے۔‘‘
عبد اللہ بن مسعود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:
((أیها الناس إنه لیس من شيء یقربکم من الجنة و یبعد کم من النار إلا قد أمرتکم به ولیس شیء یقربکم من النار ویبعدکم عن الجنة إلا وقد نهيتکم عنه)) [2]
’’اے لوگو! میں تمہیں جنت کے قریب کرنے والی اور آگ سے دور کرنے والی تمام باتوں کا حکم دے چکا ہوں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو تمہیں آگ سے
[1] صحیح مسلم، 17؍ 149
[2] مصنف ابن ابی شیبہ: 31، شعب الایمان : 10376