کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 112
ہونی چاہیے۔ اس بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید نے عورت کو گھر میں ٹھہرے رہنے کا حکم ہے۔اس کا اصل مقام گھر ہے۔گھر سے باہر نکلنے کی کوئی وجہ ہونی چاہیے۔چھوٹی موٹی معمولی نوعیت کی چیزوں کی خریداری کے لیے بازاروں کے چکر لگانا درست نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملازمت کرنے والی خواتین کو یہ دیکھنا ہے کہ ان کی ملازمت کس نوعیت کی ہے۔دین کی نشرواشاعت کے لیے ، تعلیم وتعلم کے لیے ، علاج معالجے کے لیے ، اس نوعیت کا کوئی جائز مقصد ہو تو ملازمت کرنا حرام نہیں ہے بلکہ شرعی حدود کے پابندی کے ساتھ نیت اچھی ہونے کی صورت میں اس پر اجر ہے۔ اگر مقصد پیسہ کمانا اور معیار زندگی بلند کرنا ہے پھر ملازمت میں شرعی قوانین کا لحاظ بھی نہ رکھا جائے تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔کسی خاتون کا ٹریفک وارڈن بھرتی ہو کر چوک میں کھڑے ہو جانا سراسر حرام ہے۔معیار زندگی کی بہتری تو ایسا دھوکہ ہے جس کا کوئی علاج نہیں،کیونکہ بہترین معیار زندگی کی تعریف کرنا ناممکن ہے۔کسی بھی معیار کو مثالی اور آئیڈیل قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس کی کوئی آخری حد نہیں ہے۔کسی بیوہ، غریب اور مسکین عورت کا ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کے لیے کام کاج کے لیے نکلنا استثنائی صورت ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر عورت کو کسی مجبوری کے تحت باہر نکلنا پڑتا ہے یا ملازمت کرنا پڑتی ہے اور اس میں کچھ باتیں غیرشرعی بھی ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ مجبوری کو مجبوری کی حد تک رکھے ۔غیر شرعی امور کو جائز اور حلال نہ جانے۔اس کی قباحتوں کو ممکن حد تک کم کرنے کی کوشش کرے۔جان بچانے کے لیے مردار کھایا جا سکتا ہے،لیکن اس سے یہ حلال نہیں ہو جاتا۔