کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 111
انھوں نے اس دعوت کو نیا اور اجنبی قرار دیتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور باپ دادا کے طریقوں کو بطور دین کے اختیار کرنے کا اعلان کیا۔اللہ تعالیٰ نے ان کے اس رویے کو غلط قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا١ اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَيْ۔ًٔا وَّ لَا يَهْتَدُوْنَ ﴾ (المائدۃ:104) ’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ قانون اور رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا یہ اپنے باپ دادا کے طریقے پر ہی چلیں گے۔خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستہ کی انہیں خبر ہی نہ ہو۔؟‘‘ خاندان کے صرف وہی طور طریقے قابل قبول ہیں جو شریعت کے مطابق ہیں۔غیر شرعی طریقوں سے خود بھی بچنا ہے اور ان کے ساتھ نیکی کرتے ہوئے حکمت ودانائی کے ساتھ انہیں بھی بچانے کی کوشش کرنا ہے ۔یہاں پر یہ قاعدہ سامنے رکھنا چاہیے : لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق [1] ’’خالق(اللہ) کی نافرمانی کرتے ہوے مخلوق کی اطاعت نہیں ہو سکتی۔‘‘ لہذا گھر والوں اور شوہر کی وہی باتیں مانی جائیں گی جو شریعت کے مطابق ہیں۔ان کے کہنے سے کوئی غیر شرعی کام جائز اور حلال نہیں ہو سکتا۔چھوٹی بچیاں تو غیر مکلف ہیں،لیکن بالغ خواتین کو اپنے اعمال کا خود حساب دینا ہو گا۔ 4۔بعض دیگر مجبوریاں بسا اوقات خواتین کو ملازمت کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے۔اس صورت میں بہت سی شرعی باتوں پر پوری طرح عمل نہیں ہو پاتا۔اس نوعیت کی مجبوری میں کچھ رعایت
[1] مسند احمد:1041، صحیح الجامع:7520