کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 108
﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ﴾ (البقرہ:286)
’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو طاقت سے بڑھ کر مکلف (ذمہ دار) نہیں بناتے۔‘‘
اس لیے دین کو سمجھانے کی بجائے خود دین سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
2۔ہماری نیت ٹھیک ہے
پردے وغیرہ میں اصل مسئلہ نیت کا ہے۔نقاب اور برقعے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس بارے میں عموما یہ حدیث طیبہ سنائی جاتی ہے۔إنما الأعمال بالنیات
ہم اس پوری حدیث کو بیان کرتے ہیں:
((إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى اللّٰه ورسوله فهجرته إلى اللّٰه ورسوله ومن كانت هجرته إلى الدينا يصبها أو إلى امرأة أن ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه ))
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ہر شخص کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی جس نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی تو یقینا اسکی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہی ہے اور جس نے دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی خاتون سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی تو اس کی ہجرت انہی کاموں کے لیے ہے۔‘‘(صحیح بخاری)
اس حدیث کی تفصیل یوں ہے کہ جب مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ان میں ایک خاتون ام قیس بھی شامل تھی۔جس سے شادی کا خواہاں مکہ میں رہ گیا اور ہجرت نہ کی، اس خاتون نے شادی کے لیے ہجرت کی شرط لگائی تو وہ ہجرت کر کےمدینہ آ گیا۔لوگوں نے اس کا نام مہاجر ام قیس رکھ دیا۔دیگر ذرائع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو اس موقع پر آپ نے یہ حدیث مبارکہ بیان