کتاب: مسلمان عورت جنت اور جہنم کے دوراہے پر - صفحہ 102
عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْ۔ًٔا وَّ قِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ ﴾ (التحریم:10)
’’اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کوبطور مثال کے پیش کیا ہے۔وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں۔مگر انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آ سکے۔دونوں سے کہہ دیا گیا کہ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاؤ۔‘‘
یہاں پر پہلی عورت سے مراد نوح کی بیوی جس کا نام والھہ اور دوسری عورت سے مراد لوط کی بیوی جس کا نام والغہ تھا۔
یہاں پر خیانت سے کیا مراد ہے؟ یاد رکھیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے بستر کی حفاظت فرماتے ہیں۔نبی کے بستر کی خیانت کبھی نہیں ہو سکتی۔یہی وجہ ہے کہ جب ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ پر تہمت لگائی گئی تو اللہ رب العالمین نے وحی کے ذریعے قرآن مجید میں ان کی براء ت کا اعلان فرمایا۔یہاں پر خیانت سے علما نے حسب ذیل معانی مراد لئے ہیں:
تفسیر قرطبی میں امام قشیری فرماتے ہیں:
"کانت خیانتهما فی الدین وکانتا مشرکین" [1]
’’ان دونوں کی خیانت دین میں تھی اور وہ دونوں مشرک تھی۔‘‘ امام آلوسی نے فرمایا۔یہ دونوں خواتین دو عظیم الشان انبیاء کی عصمت کے تحت تھی۔انہیں دنیا آخرت کی سعادت حاصل کرنے کے مواقع میسر تھے لیکن انہوں
[1] تفسیر قرطبی:192/18