کتاب: اسی فولدر میں یہ کتاب دو دوفعہ آیا ہے کسی ایک کو ہٹا دیں - صفحہ 43
کئے۔انگریزی حکومت نے فورا کتاب پر پابندی لگا دی، مصنف چونکہ فرضی نام کا تھا اسلئے وہ گرفتار نہ ہوسکا البتہ ناشر کو گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلایا گیا۔
ادھر ناموس رسالت پر نثار ہونے والے پروانوں نے ان دونوں گستاخوں کو سزادینے کی ٹھا نی، ناشر کا معاملہ واضح تھا، اس لئے" راج پال " کو واصل جہنم کرنے کے لئے اس پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے۔24ستمبر1927ء کو یکی گیٹ لاہور کے رہنے والے غازی خدابخش ابوجھانے راج پال پر حملہ کیا، لیکن و ہ ملعون اس حملہ میں بچ گیا۔اس کے بعد 19اکتوبر 1927ء کو ایک افغانی باشندہ غازی عبد العزیز نے راج پال پر حملہ کیا، اتفاق سے اس دن راج پال کی دکان پر اس کی جگہ سوامی ستیا نند بیٹھا ہو تھا جو اس قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی ہوگیا۔اسی دوران حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد وزیر خان میں منعقدہ ایک جلسے میں اپنی شعلہ بیانی سے امت کے دلوں میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ کو ہوا دی، اس جلسے کو سننے کے بعد اندرون لاہور کے رہائشی حضرت غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ نے 6دسمبر1927ء کو راج پال پر حملہ کرکے اسے جہنم رسید کردیا۔
ادھردہلی کے مسلمانوں نے اپنے اپنے ذرائع سے پتہ لگا یا کہ اس کتاب کا اصل مؤلف دہلی کا باشندہ سوامی شردھا نند ہے، انڈیا گیٹ کے قریب رہنے والے حضرت غازی عبد الرشید رحمۃ اللہ علیہ نے دسمبر 1925ء میں سوامی شردھانند کو قتل کرکے مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچائی۔