کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 9
( ص ۴۹۲ ج ۲)روایت کیاہے اوراس کی سندکو صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی نے اس کی تائید کی ہے نیز سیوطی نے درمنثور میں،اسحاق بن راھویہ اورابن المنذر اورابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں(ص ۳۳۶۰ ج ۱۰ )ابن مردویہ اوربیہقی کے حوالے سے اس کوذکر کیاہے اسی طرح حاشیہ زاد المسیر (ص۲۹۳ ج۸) ،حافظ بوصیری نے اتحاف میں(ص۱۷۸ ج۸) پراورحافظ ابن حجر نے المطالب العالیہ (ص۳۸۹ ج۳) میں اس روایت کوذکر کیاہے اورعلامہ نواب صدیق حسن خان نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی لکھاہے کہ اس سے مراد وہ لڑکی ہے جو ابھی بلوغت کی عمرکونہیں پہنچی اورتفسیر فتح البیان میں ہے کہ :
﴿ واللائی لم یحضن لصغرھن وعدم بلوغھن سن المحیض اولانھن لاحیض لھن اصلا وان کن بالغات قالہ الخطیب٭ ص۱۸۸ج۱۴ ﴾
یعنی ’’ وہ عورتین جن کوبچپن کی وجہ سے ابھی تک حیض نہیں آیایا بالغ ہوجانے کے بعد بھی ابھی تک حیض نہیں آیایہ بات خطیب نے کہی ہے‘‘اورتفسیر البحر المحیط میں ہے کہ :
﴿ وروی ان قوما منھم ابی بن کعب و خلاد بن النعمان لما سمعوا قولہ ، والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء قالوا یارسول اللّٰه ماعدۃ من لا قرأ لھا من صغر او کبرفنزلت ھذہ الایۃ ٭ ص۲۸۴ ج۸ ﴾
یعنی ’’روایت میں ہے کہ جب صحابہ میں سے بعض لوگوں نے سورۃ البقرۃ کی آیت۲۲۸ سنی تواس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاکہ یارسول اللہ جن عورتوں کا حیض نہیں جیسے کہ نابالغ لڑکی جس کو ابھی حیض نہ آیاہو اور بوڑھی عورت جس کاحیض بند ہوچکاہویہاں مذکور نہیں ہیں‘‘اسی طرح تفسیر قرطبی میں ہے کہ :
﴿واللائی لم یحضن: یعنی الصغیرۃ ٭ ص۱۶۵ ج۱۸﴾
یعنی ’’اس آیت میں واللائی لم یحضن سے مرادنابالغ لڑکی ہے ‘‘اورامام مالک رحمہ اللہ کاقول ہے کہ:
﴿ قلت : ارأیت الصغیرۃ التی قد جومعت والکبیرۃ البالغۃ ایکو ن القسم فی قول مالک قال نعم ]( مدونۃ الکبریٰ ص۲۷۱ ج۲ )
یعنی ’’ میں نے کہاکہ امام مالک رحمہ اللہ کے قول میں ایک آدمی کی دوعورتوں ایک جماع شدہ نابالغ لڑکی