کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 8
نابالغ لڑکی کے نکاح کاثبوت قرآن سے :
مذکورہ مسئلہ یعنی بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کانوسال کی عمر میں نکاح متفق علیہ ہے اس نکاح کے وقوع سے لیکر آج تک اہل علم کے مابین یہ اتفاقی مسئلہ رہاہے تمام اسلامی فرقے اس نکا ح کوصحیح مانتے ہیں اوراسکا انکار صرف ان لوگوں کی طرف سے آیاہے جواحادیث کی حجیت کے منکر ہیں خواہ وہ کسی دورمیں بھی رہے ہوں نابالغ لڑکی کے نکاح کا ثبوت طلاق کے ضمن میں خود قرآن میں مذکورہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
﴿ وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ] ( سورۃ الطلاق ۴ )
یعنی ’’تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوگئی ہوں اگر تمہیں شبہ پڑجائے توان کی عدت تین ماہ ہے اوران کی بھی جنہیں حیض آناشروع ہی نہیں ہواعدت تین ماہ ہے ‘‘ حافظ ابن کثیر نے لفظ ’’واللائی لم یحضن‘‘کی تفسیر میں لکھاہے کہ﴿ وکذا الصغار اللائی لم یبلغن سن الحیض ﴾ یعنی ان نابالغ لڑکیوں کی عدت بھی تین ماہ ہے جو حیض کونہیں پہنچیں یعنی ان کا نکاح ہوااوررخصتی بھی ہوئی پھر کسی وجہ سے ان کو طلاق ہوگئی اس لفظ کی تفسیر ابن جریر طبری نے مشہور مفسرین قرآن مثلاً سدی کبیر اورقتادہ اورضحاک سے بھی یہی نقل کی ہے کہ اس لفظ سے ان نابالغ لڑکیوں کی عدت مراد ہے جو سن بلوغت کو نہیں پہنچیں اورظاہر ہے کہ عدت طلاق کے بعد ہوتی ہے طلاق نکاح سے پہلے ممکن نہیں ہے۔
امام ابن الجوزی نے تفسیر زاد المسیرص۲۹۳ میں لکھاہے کہ اس آیت کے سبب نزول میں دو قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ جب مطلقہ عورتوں اورجن کے خاوند فوت ہوگئے ہوں انکی عدت قرآن کریم میں سورۃ بقرۃ آیات ۲۲۷تا۲۳۲ میں بیان ہوچکی توابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہاکہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی عورتیں کہتی ہیں کہ قرآن میں کچھ عورتوں کی عدت کاذکر نہیں آیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکون عورتیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہانابالغ لڑکیاں اورجن عورتوں کاخون بڑھاپے کی وجہ سے بند ہوچکاہواورحمل والی عورتیں اس پریہ آیت نازل ہوئی اس آیت کو امام واحدی نے اسباب النزول میں اورابن جریر الطبری نے تفسیر میں اورحاکم نے مستدرک میں