کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 59
رہیں تھیں اوران احکامات سے اعراض اورخلاف ورزی ہمیشہ سے فساد فی الارض کاباعث رہی تھی اس لئے ان احکامات کی اہمیت و افادیت کوسمجھنے کی غرض سے یہاں عقل و فہم انسانی کودعوت دی جارہی ہیتاکہمسلمان ان احکامات کی پابندی کواپنے اوپرکوئی بوجھ نہ سمجھیں،اسی طرح بنیادی اخلاقیات کے خلاف ایک چیزقول و فعل کاتضاد بھی ہے ،اسکے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ: ﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ٭ سورۃ البقرۃ ۴۴﴾ یعنی ’’کیاتم دوسروں کانیکی کاحکم دیتے ہواورخو د اپنے آپ کوبھول جاتے ہوحالانکہ تم تو کتاب بھی پڑھتے ہوپس کیاتم عقل نہیں رکھتے‘‘یعنی کسی غلط عمل کی کوئی تاویل یاتوجیح کرکے انسان اپنے آپ کودھوکانہ دے بلکہ عقل کے تقاضے کوسامنے رکھتے ہوئے جس نیکی کاحکم دوسروں کودے رہاہے خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے،اسی طرح ہروہ بات جو خلاف واقعہ اور زمان ومکان کے اعتبار سے محال ہواس پر اصرار کرنے والوں کوبھی قرآن نے عقل کے استعمال کامشورہ دیاہے مثلاًسورۃ آل عمرآن میں ارشاد ہواکہ: ﴿ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ٭ سورۃ آل عمران ۶۵﴾ یعنی ’’اے اہل کتاب ابراھیم علیہ السلام کے(مذہب کے)بارے میں تم کیوں جھگڑتے ہوحالانکہ توریت اورانجیل توان کے بعد نازل ہوئیں ہیں کیاتم عقل نہیں رکھتے‘‘یہاں اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کے اس تنازع کے تذکرہ کررہاہے جس میں دونوں فریق یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ابراھیم علیہ السلام ان کے مذہب پر تھے حالانکہ یہودیت اورعیسائیت جن آسمانی کتابوں کے بعد قائم ہوئی وہ ابراھیم علیہ السلام کے بعد ہیں اسلئے ایسی بات محض بے عقلی کے سوا کچھ نہیں اس لئے قرآن اسکی مذمت کررہاہے یعنی عقل کو استعمال کرنے کی دعوت قرآن کی تشریح یااحکامات و حدود اللہ سے متعلق آیات کے ضمن میں پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے بلکہ اسکی تشریح اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال واعمال کے ذریعہ خود فرمائی ہے جسکی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے فرمایا: