کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 56
رواۃ حدیث کے حالات و کردار کی جس اندازمیں چھان پھٹک کی ہے اس سے سب واقف ہیں پس معلوم ہواکہ اصولی طورپراحکامات اورمعاملات کے ضمن میں ظن حق کوثابت اورغالب کرنے کیلئے قابل قبول اورمفیدہے یعنی احادیث کواگر ظنی کہابھی جائے تب بھی احادیث اموردین میں دلیل و حجت ہیں۔ منکرین حدیث کی پانچویں شناختی علامت یہ ہے کہ یہ لوگ دین کے معاملات میں عقل کواستعمال کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں اورعلمائے دین کوعقل نہ استعمال کرنے کاطعنہ دیتے ہیں بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ علماء چونکہ عقل استعمال نہیں کرتے اس لئے اہل علم میں شمار کرنے کے لائق بھی نہیں ہیں ثبوت کے طورپر پرویز صاحب کایہ فتویٰ ملاحظہ فرمایئے وہ لکھتے ہیں کہ: ﴿ کسی چیز کے حفظ کرنے میں عقل و فکر کوکچھ واسطہ نہیں ہوتااس لئے حفظ کرنے کوعلم نہیں کہاجاسکتا،ہمارے علماء کرام کی بعینہ یہی حالت ہے کہ انھوں نے قدیم زمانے کی کتابوں کواسطرح حفظ کیاہوتاہے کہ انہیں معلوم ہوتاہے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق فلاں کتاب میں کیالکھاہے، فلاں امام نے کیاکہاہے ،فلاں مفسر کاکیاقول ہے ،فلاں محدث کاکیا ارشاد ہے اورجوکچھ انہیں ان کتابوں میں لکھاملتاہے وہ اسے حرفاًحرفاً نقل کردیتے ہیں اس میں اپنی عقل و فکر کوقطعاً دخل نہیں دینے دیتے اسلئے ہم انہیں علمائے دین کہنے کے بجائے (Catalogur) یعنی حوالہ جات کی فہرست کہتے ہیں اورعلامہ اقبال کے بقول : ’’فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا‘‘ قرآن نے اسکو’’حمل اسفار‘‘ کتابیں اٹھائے پھرنے سے تعبیر کیاہے یہ اپنے محددود دائرے میں معلومات کے حافظ ہوتے ہیں عالم نہیں ہوتے٭قرآنی فیصلے ص۵۰۶ ﴾ منکرین حدیث دینی معاملات میں عقل کے استعمال کیلئے دلیل کے طورپر قرآن کی متعدد آیات کوپیش کرتے ہیں جس کے باعث ہر وہ شخص جواپنے آپ کوعقلمند کہلوائے جانے کا خواہشمند ہوتاہے منکرین حدیث کے پھیلائے ہوئے اس جال میں با آسانی پھنس جاتاہے اس لئے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر منکرین حدیث کی اس فریب کاری کاپردہ بھی چاک کردیاجائے تاکہ معلوم ہوجائے کہ قرآن نے عقل