کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 55
نہیں کیاکہ اس نے فرشتوں کودیکھاہے یعنی اس ضمن میں انہیں علم کے حصو ل کے تینوں ذرائع میں سے کوئی بھی ذریعہ حاصل نہیں تھاجس کاذکر قرآن یہاں کررہاہے اسلئے اس ظن کو احادیث نبوی پر محمول کرنابڑی بھاری غلطی ہے کیونکہ محدثین نے جن اہل علم سے یہ احادیث سنیں انھوں نے اس دعویٰ کے ساتھ ان احادیث کوپیش کیایہ احادیث انھوں نے خود اپنے کانوں تابعین سے ،تابعین نے اپنے کانوں سے صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام نے اپنے کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں اور محدثین کرام نے احادیث بھی صرف ان لوگوں کی قبول کیں جن کازہد و تقویٰ اورعلمیت مسلمہ تھی مزیدبرآں جن لوگوں نے احادیث کوظنی کہاہے ان لوگوں کی مراداس سے وہ ظن نہیں جومنکرین حدیث باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد حق الیقین سے کم تر درجہ کایقین ہے کیونکہ ظن کا لفظ بعض اوقات یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے جس کی مثال قرآن میں بھی موجود ہے مثلاًسورۃ بقرۃ میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ : ﴿ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (45) الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ٭ سورۃ البقرۃ ۴۵،۴۶ ﴾ یعنی ’’اللہ سے مدد طلب کرو صبراورنماز کے ذریعہ اوربے شک (نماز ) بڑی بھاری چیز ہے مگران لوگوں پرنہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں ،(اللہ سے ڈرنے والے لوگ ) وہ ہیں جو اللہ سے ملاقات اوراسکی طرف لوٹ جانے کاظن رکھتے ہیں‘‘صاف ظاہرہے کہ یہاں ’’ظن ‘‘سے مراد ایمان و یقین ہے کیونکہ آخرت اور اللہ سے ملاقات پر یقین رکھنااسلام کاایک لازمی جزو ہے پس سورۃ نجم کی آیت میں مذکورظن کواحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پرلاگوکرنامحض دجل وفریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ دین اسلام میں بہت سے امورہیں جن کافیصلہ محض ظن کی بنیاد پرہی کیاجاتاہے مثلاًچوری ،زنااورقتل وغیرہ کے مقدمہ میں اکثراوقات فیصلہ اشخاص کی گواہی پرہی کیاجاتاہے اورگواہی کاظنی ہونااظہرمن الشمس ہے پھران مقدمات میں گواہ کے جھوٹے ہونے کاامکان بھی ہمیشہ موجودرہتاہے اسکے باوجود جو فیصلہ کیاجاتاہے وہ سب کیلئے قابل قبول ہوتاہے اورنافذالعمل سمجھاجاتاہے جبکہ رواۃ حدیث کاجھوٹے ہونے امکان نہ ہونے کے برابراہے کیونکہ محدثین نے اس سلسلہ میں جو محکم اصول بنائے ہیں اور