کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 54
اس شخص کواپنی اولادکا منکرنہیں کہاجائے گااسی طرح جب منکرین حدیث ان احادیث کی کتابوں کوحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے ماننے کوتیار نہیں ہیں توانہیں منکرحدیث نہیں تواورکیاکہاجائے گا۔ منکرین حدیث کی چوتھی شناختی علامت یہ ہے کہ یہ لوگ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کووحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اورحصول علم کایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوں کومحض ظن اورگمان پرمشتمل موادتصورکرتے ہیں اوراسکی دلیل قرآن سے یہ پیش کرتے ہیں کہ’’ ان الظن لایغنی من الحق شیأ‘‘یعنی’’ گمان کبھی حق کی جگہ نہیں لے سکتا‘‘حالانکہ قرآن کی آیت کایہ ٹکڑا دووجوہات کی بناپراس ضمن میں قابل استدلال نہیں ہے اسکے لئے اس آیت اوراسکی ماقبل آیت کوپورا دیکھناضروری ہے ،ان آیات کے الفاظ یہ ہیں: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثَى (27) وَمَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ٭ سورۃ النجم آیت ۲۷،۲۸ ﴾ یعنی ’’بے شک جو لوگ آخرت پرایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کومونث ناموں سے پکارتے ہیں اور ان کے پاس کچھ علم نہیں وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اورگمان کبھی حق کی جگہ نہیں لے سکتا‘‘پہلی بات یہاں اس آیت میں لفظ ظن کوعلم کے مقابلے میں لایاگیاہے اورعلم حاصل ہونے کے تین ذریعہ ہوتے ہیں یعنی سننا، دیکھنا اورمحسوس کرنامثلاً ایک شخص نے لوگوں سے سنا کہ شکرسفیدرنگ کی اورمیٹھی ہوتی ہے لیکن خود اس شخص نے کبھی شکردیکھی ہے اور نہ چکھی ہے تومحض سننے سے اسے جو یقین حاصل ہوگااسے علم الیقین کہاجائے گا پھر وہ شکرکودیکھ لیتاہے اوراسے سفید ہی پاتاہے تواب اسے شکر کے بارے میں عین الیقین حاصل ہوجائے گا اسکے بعداسے چکھ بھی لیتاہے تومیٹھاہی پاتاہے تواب اسے شکر کے بارے میں حق الیقین حاصل ہوجائیگاپس معلو م ہواکہ اس آیت میں ظن سے مرادمحض وہم وخیال ہے کیونکہ جن لوگوں کااس آیت کریمہ میں تذکرہ ہے کیاان میں سے کسی نے کبھی یہ دعویٰ کیاتھاکہ اس نے فرشتوں کو دیکھاہے اورمونث حالت میں دیکھاہے ؟صاف ظاہر ہے اہل مکہ جو فرشتوں کومونث مانتے تھے ان میں سے کسی نے کبھی یہ دعویٰ