کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 5
پرویز صاحب نے باقی احادیث کے انکار کے ساتھ ساتھ ایسی احادیث کابھی انکار کیاہے جن کوامام بخاری رحمہ اللہ اورمسلم رحمہ اللہ اوردیگر جید علماء ومحدثین نے اپنی کتابوں میں صحیح اسانید کے ساتھ روایت کیاہے جس میں ہے کہ بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کے وقت عمر نوسال تھی،پرویزصاحب کی تائیدمیں ایک اورمنکر حدیث محمود احمد عباسی نے بھی اس حدیث کاانکار کیاہے اوراسکوغلط قرار دیاہے اوراسمیں یہ موقف اپنایاہے کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر نکاح کے وقت نوسال نہیں بلکہ اٹھارہ سال تھی۔
محمود احمد عباسی کے بعد ابھی حال ہی میں ایک بزرگ نے ان مذکورہ منکرین حدیث کی تائید میں ایک رسالہ لکھاہے جس کانام ہے ’’آؤناموس رسالت کی حفاظت کریں‘‘ اس بزرگ کانام ظہور احمدقرشی ہے ویسے ہماری رائے میں تو اس متفق علیہ مسئلہ کی تحقیق سے قبل چاہیے تویہ تھاکہ یہ بزرگ پہلے خود اپنے نام کی تحقیق کرتے کیونکہ’’ ظہوراحمد‘‘بذات خود ایک بدعتی نام ہے اس قسم کے نام وہ لوگ رکھتے ہیں جو وحدۃ الوجود یا وحدۃ الشہود اورحلول وغیرہ کاعقیدہ رکھتے ہیں چونکہ ظہور الٰہی کا مطلب ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی صو رت وشکل میں ظہور فرمایاہے چناچہ ظہور احمد کا مطلب ہو اکہ احمد یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی صورت میں ظہور فرمایاہے یہ عقیدہ صوفیہ کے مشہور عقیدوں میں سے ہے اس قسم کے تمام نام سب سے پہلے انھوں نے ہی ایجاد کئے تھے بعدمیں یہ نام اتنے مشہور و معروف ہوگئے کہ اکثر صحیح العقیدہ ناواقف لوگ بھی یہ نام رکھنے لگے یہ نام اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے ایک زہر بھرا لفظ ہے مذکورہ کتاب کے مؤلف کو پہلی فرصت میں اپنا نام صحیح کرناتھامگر ناواقفیت کی بناپرغالباً وہ یہ کام کرنے سے رہ گئے اورمنکرین حدیث کی کتابوں سے مواد جمع کرکے ناموس رسالت کی حفاظت کابیڑا اٹھانے کی ذمہ داری لے بیٹھے۔
بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے وقت ان کی عمرنوسال ہونے پرقدیم زمانے سے تمام امت اسلامیہ کا اجماع رہاہے اورصرف اس مغرب زدہ دورمیں کچھ لوگ ایسے پیداہوئے ہیں جوناموس رسالت اورناموس صحابہ کی دہائی دیکر اسکو تسلیم کرنے سے انکار کرنااورکرواناچاہتے ہیں تاکہ کسی طرح صحیح احادیث کے انکار کادروازہ کھل جائے اور اگرایک بار یہ دروازہ کھل گیاتو پھرخواہش پرست لوگ جس حدیث کوچاہیں گے قبول کریں گے اورجس کوچاہیں گے رد کردیں گے اسطرح وہ دین کوموم کی ناک بناکر جس طرف چاہیں موڑ سکیں