کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 26
جانے کے بعد اپنے والد سے منسوب کرکے وہ روایات بھی مرسلاً بیان کرناشروع کردیں تھیں جوانھوں نے اپنے والد سے نہیں بلکہ دوسروں سے سنی تھیں‘‘محض جھوٹ اورجہالت پر مبنی ہیں کیونکہ مؤلف رسالہ کی عبار ت کامطلب یہ نکلتاہے کہ ہشام نے عراق میں ایسی احادیث اپنے والد سے روایت کیں جو کسی اورکی تھیں مگرانھوں نے ان روایات کو اپنے والد کی طرف منسوب کردیا،یہ بات نہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تہذیب میں ہے نہ اسماء الرجال کی کسی اورکتاب میں ہے مؤلف رسالہ نے زیر عنوان ’’ہشام کے ذہن پرنو سال ‘‘ یہ لکھاہے کہ: ﴿ ہشام کے ذہن پر یہ نو(۹)سال کچھ اس طرح بھوت بن کرسوارہوگئے تھے کہ انھوں نے اپنی بیوی کوبھی شادی کے وقت نوسال بناڈالاجبکہ امام ذہبی رحمہ اللہ اس واقعہ کواس طرح بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ بنت المنذر اپنے خاوند ہشام سے تقریباً تیرہ (۱۳)سال بڑی تھیں اورجب فاطمہ کی رخصتی عمل میں آئی توان کی عمرانتیس(۲۹) سال تھی یعنی ہشام نے صرف اتنی کرامت کی کہ انتیس میں سے دہائی گراکر نو(۹) رہنے دیا﴾ یہاں مؤلف رسالہ نے ہشام بن عروہ کے خلاف جنہیں ائمہ سلف نے شیخ الاسلام اورامام الحجۃ کہاہے جوبازاری زبان استعمال کی ہے وہ اہل علم حضرات کوہرگز زیب نہیں دیتی اورجس واقعہ کی طرف مؤلف رسالہ نے اشارہ کیاہے اوراس واقعہ کوحافظ ذہبی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیاہے اسکی اصلیت کوہم قارئین کے سامنے پیش کئے دیتے ہیں،میزان الاعتدال میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ: ﴿ ابوقلابہ الرقاشی حدثنی ابوداؤد سلیمان بن داؤد قال قال یحیٰ القطان اشھد ان محمد بن اسحاق کذاب قلت مایدریک قال قال لی وھیب فقلت لوھیب ومایدریک قال قال لی مالک بن انس فقلت لمالک ومایدرک قال قال لی ہشام بن عروۃ قال قلت لھشام وما یدرک قال حدث عن امرأتی فاطمۃ بنت المنذر و ادخلت علی وھی بنت تسع وما رآھارجل حتی لقیت اللّٰه تعالیٰ قلت قد اجبنا عن ھذا والرجل فما قال انہ رآھا افبمثل ھذا یعتمد علی تکذیب رجل من اہل