کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 24
کیاہے کہ: ﴿ قال یعقوب بن ابی شیبۃ : امام لم ینکرعلیہ شئی الابعد ماصار الی العراق فانہ انبسط فی الرویۃ عن ابیہ فانکر ذالک علیہ اہل بلدہ والذی نریٰ ان ھشاما تسھل لاھل العراق انہ کان لا یحدث عن ابیہ الاماسمعہ منہ فکان تسھلہ انہ ارسل عن ابیہ مماکان سمعہ من غیر ابیہ عن ابیہ ٭ تہذیب ص۳۴ ج۶ ﴾ یعنی ’’یعقوب بن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے کہاکہ ہشام بن عروہ ثقہ ہے اورحدیث و محدثین کاامام ہے اس پراس کی کسی حدیث کی وجہ سے اعتراض نہیں کیاگیامگر جب وہ عراق گیاتووہاں اس نے اپنے والد کی حدیثیں کھل کربیان کرناشروع کردیں تواسکے شہر والوں نے اس پرانکاریعنی اعتراض کیاکہ اس نے اپنے والد کی سنی اوران سنی روایات کو’’عن‘‘ سے بیان کرناشروع کردیاہے جبکہ چاہیے یہ تھاکہ اپنے والد کی جو روایات اس نے بالواسطہ سنی ہیں ان کوبالواسطہ ہی بیان کرتامگرایسی روایات کوبھی اس نے بلاواسطہ بیان کیا‘‘اس سے یہ ثابت ہواکہ مؤلف رسالہ نے جو یہ کہاہے کہ ’’ہشام کی عراقی روایات کو اہل مدینہ نے برا تصورکیاہے‘‘یہ الفاظ کسی کتاب میں نہیں ہیں بلکہ وہاں صرف انکار کالفظ ہے جو اعتراض کے معنوں میں استعمال ہواہے جس کے معنی ’’برا ‘‘کرنامؤلف کی عربی زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے اوراسی سے دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ ہشام کی جن روایات پر اسکے شہر والوں نے اعتراض کیاوہ روایات بھی ہشام کے والدہی کی تھیں مگر ان روایات کو ہشام نے والد سے نہیں سناتھابلکہ کسی اورمحدث نے ان کے والد سے یہ روایا ت سنی تھیں اوراس سے ہشام نے سنیں تھیں معلوم ہوناچاہیے کہ ایسی روایات کے بلا واسطہ بیان کرنے کو ارسال اورتدلیس کہتے ہیں اور تدلیس اورارسال بڑے بڑے محدثین سے بھی سرزد ہوئی ہے جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کو مدلسین میں شمارکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ﴿ مالک بن انس رحمہ اللّٰه الامام المشہور یلزم من جعل التسویۃ تدلیسا ان یذکرہ فیھم لانہ کان یروی عن ثور بن زید حدیث عکرمۃ عن ابن عباس