کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 17
﴿ قال محمد بن الحکم سمعت الشافعی تقول تحمل المراۃ بالیمن لبنت تسع او عشرہ ٭ آداب الشافعی و مناقبہ ص۴۹ ﴾
یعنی’’محمدبن عبدالحکم کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے سنایمن میں عورت نویں یادسویں سال میں حمل والی ہوجاتی ہے‘‘حافظ ذہبی نے اسی قول کو سیراعلام النبلاء میں بھی نقل کیاہے وہاں الفاظ یہ ہیں:
﴿ رأیت بالیمن بنات تسع یحضن کثیرا٭ ص۹۱ ج۱۰﴾
یعنی ’’میں نے یمن میں دیکھاکہ نو سال کی عمر والی لڑکیاں حیض والی ہوجاتی ہیں‘‘یہ شہادت امام شافعی رحمہ اللہ کی ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے جن کی علمیت اورمقام و مرتبہ کے قرشی صاحب بھی قائل ہیں اس سے آپ کایہ قول باطل ہوجاتاہے کہ عرب میں لڑکیاں نوسال میں بالغ نہیں ہوتیں۔
سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر غیر مسلموں کااعتراض دلیل نہیں:
قرشی صاحب اپنی مغرب زدہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
﴿ غیرمسلم یہود و نصاریٰ بھی نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی روایت کی روسے سوالات کرتے آئے ہیں جس کاجواب ہمارے علماء حضرات سے نہیں بن پڑتا﴾
اصل بات درحقیقت یہی ہے کہ قرشی صاحب اپنے تئیں اس مسئلہ کی وجہ سے اپنامنہ غیر مسلموں کو دکھانے کے لائق نہیں سمجھتے اس لئے ناموس رسالت کے تحفظ کی آڑ میں احادیث صحیحہ کے انکارکی یہ روش اپنائی ہے یہ حربہ صرف قرشی صاحب ہی نہیں بلکہ تمام موجودہ دور کے منکرین حدیث ناموس رسالت کی دہائی دے کرہرصحیح حدیث کا انکارکرکے بڑی کامیابی سے استعمال کررہے ہیں اور عوام الناس کو بے وقوف بنارہے ہیں حالانکہ یہ غیر مسلم مسلمانوں سے نہ کبھی راضی ہوئے ہیں اورنہ کبھی ہوسکتے ہیں مثلاً قرشی صاحب کے پاس غیر مسلموں کے اس اعتراض کاکیاجواب ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کوچارسے زیادہ عورتوں کے ساتھ شادی کی اجازت نہیں دی اورخود بارہ تیرہ شادیاں کرڈالیں یہ سوال اوراعتراض تو بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے بھی زیادہ سخت ہے اورقرشی صاحب کایہ کہناکہ غیر مسلموں کے اس اعتراض کا جواب ہمارے کسی