کتاب: منکرین حدیث اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر کا تعین - صفحہ 14
کی صورت میں جماع کے ائمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ بھی قائل ہیں اوران ائمہ کے علاوہ تمام علمائے مسلمین کابھی اس مسئلہ پر اتفاق رہاہے اوراس ضمن میں سلف صالحین میں سے کسی کی مخالفت ہم نے ابھی تک نہیں پائی لیکن صاحب رسالہ (آؤ ناموس رسالت کی حفاظت کریں) اپنے رسالے میں اخلاق اسلامیہ کے دائرے میں بھی نہیں رہے اورکتاب میں علمائے سلف کے حق میں وہ زبان استعمال کی ہے جو کسی دین دار اورذی فہم شخص کی قطعی شایان شان نہیں ہے۔
نابالغ لڑکی کے نکاح کاعقلی دلائل سے ردکرنے والوں کوجواب:
قرشی صاحب اپنے رسالے میں جس ناموس رسالت کیحفاظت کادعویٰ فرمارہے ہیں اس کاایک نمونہ یہاں ملاحظہ فرمایئے لکھتے ہیں کہ:
﴿ امت مسلمہ سے سوال :ہے کوئی دل والا مسلمان جو اپنی نو سالہ بچی کی شادی ایک پچاس سالہ شخص سے کردے ،ہم اس حقیقت سے واقف ہیں کہ تمام لوگ ایسے سوال کرنے والے کو پاگل جنونی کی بکواس کہیں گے٭آؤ ناموس رسالت کی حفاظت کریں ص۷﴾
ہماراجواب یہ ہے کہ بقول آپ کے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے وقت عمرنو سال نہیں بلکہ ٹھارہ یا انیس سال تھی اگربالفرض ایساہی ہوجیساکہ آپ فرمارہے ہیں توکیاآج کے مسلمان معاشرے میں اگر کوئی پچاس سالہ شخص کسی اٹھارہ سال کی دوشیزہ کا رشتہ مانگے توکیااسے لوگ پاگل اورجنونی نہیں کہیں گے ؟ یقیناًکہیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ لڑکی والے اس شخص کی اچھی خاصی دھلائی بھی کردیں ایسی صورت میں آج کے مسلمان معاشرے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورسے تطبیق دیناقرشی صاحب کے فاتر عقل ہونے کی واضح علامت ہے یعنی آج کے مسلمان یا آج کے دور کی مثال کسی بھی اسلامی اصول کے صحیح یاغلط ہونے کیلئے کوئی معیارنہیں ہے بلکہ دلیل اورمعیار قرآن و سنت اوراجماع امت ہے ،صاحب رسالہ نے یہ بھی لکھاہے کہ:
﴿ اگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کانکاح اس عمر میں ہواتھاتوپھر علماء و فقہاء اس سنت سے اعراض کیوں کرتے رہے ہیں﴾