کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 94
چھوڑنا چاہیے، بلکہ ایک دوسرے پر باندھنا چاہیے، جیسا کہ دوسرے تین ائمہ سمیت جمہور اہلِ سنت کا مسلک ہے۔ چنانچہ مالکیہ میں سے اشہب نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ نفل اور فرض ہر دو طرح کی نماز میں دونوں ہاتھوں کو باندھنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام مالک کے مدنی اصحاب نے بھی ان سے یہی قول روایت کیا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھ کر ہی کھڑے ہونا چاہیے، جبکہ مطرّف اور ابن الماجشون نے امام مالک سے نہ صرف ہاتھ باندھنے کا قول روایت کیا ہے، بلکہ کہا ہے کہ امام مالک ہاتھ باندھنے کو مستحسن قرار دیتے یا اچھا سمجھتے تھے۔ امام ابن المنذر نے امام مالک سے صرف یہی قول روایت کیا ہے، دوسرا ہاتھ لٹکانے (ارسال) والا قول بیان ہی نہیں کیا۔ علامہ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں مخالف حدیث نہیں ملتی۔ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کا یہی قول و عمل ہے اور امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے مؤطا میں صرف یہی ذکر کیا ہے۔ ’’التقصي‘‘ میں علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ نماز میں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر باندھنے والی بات مجمع علیہ امر ہے۔[1] امام شوکانی رحمہ اللہ نے اٹھارہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی بیس احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے، جن سے ہاتھوں کو باندھنے کا پتا چلتا ہے۔[2] یہ ایک مالکی بلکہ مالکیہ کے بہت بڑے اور معروف علامہ ابن عبدالبر کے الفاظ ہیں، جنھیں ایک دوسرے فاضل زرقانی نے مؤطا امام مالک کی شرح میں نقل کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے بھی اسے ’’فتح الباري‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ امام مالک کے بارے میں اسی روایت یعنی ہاتھ باندھنے کی تائید نہ صرف عام کتبِ حدیث میں وارد
[1] دیکھیں: شرح الزرقاني (۱/ ۳۲۰، ۳۲۱) فتح الباري (۲/ ۲۲۴) [2] نیل الأوطار (۱/ ۲/ ۱۸۶، ۱۸۷) الفتح الرباني (۳/ ۱۷۳، ۱۷۴)