کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 90
’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین کے وقت ہاتھوں کی انگلیوں کو نہ تو چوڑائی میں کھول کر رکھتے تھے اور نہ باہم جوڑ بھینچ کر ہی (بلکہ عام حالت میں)۔‘‘ ان الفاظ سے رفع یدین کے وقت ہاتھوں کی انگلیوں کی کیفیت تو بالکل واضح ہو گئی کہ انھیں معمول کے مطابق طبعی حالت ہی میں رہنے دینا چاہیے اور انھیں اکڑا کر سیدھا کرنے یا دائیں بائیں پھیلانے کا تکلّف نہیں کرنا چاہیے نہ مٹھیاں بھینچ کر رکھی جائیں، بلکہ ہاتھوں کی انگلیوں کو بلا تکلّف کھلا رکھنا ہی کافی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ رفع یدین کے وقت ہتھیلیوں کو کس طرح رکھنا چاہیے؟ اس سلسلے میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مرفوع و صریح حدیث تو ہماری نظر سے نہیں گزری، البتہ شیخ احمد عبدالرحمن البنّا نے ’’بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني‘‘ (ترتیب و شرح مسند احمد الشیبانی) میں ابو داود کے حوالے سے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانے کا پتا دینے والی دونوں طرح کی احادیث پر بیک وقت عمل کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہاں تک کہ دونوں ہاتھوں کی پشتیں تو دونوں کندھوں کے برابر اور انگلیوں کے پَورے کانوں کے برابر ہو جائیں۔‘‘[1] صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تفسیر سے پتا چلتا ہے کہ رفع یدین کے وقت دونوں ہتھیلیوں کو قبلے کی طرف رکھنا چاہیے، تبھی جا کر ہاتھوں کی پشتیں کندھوں کے برابر آسکتی ہیں۔ نیز ’’الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ مالکی فقہا کے نزدیک تو ہتھیلیوں کو آسمان کی طرف کرنا چاہیے، جبکہ حنفی و شافعی اور حنبلی فقہا (جمہور علمائے امت) کے نزدیک ہتھیلیوں کو قبلے کی طرف کرنا چاہیے اور حضرت وائل بن حُجر رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر اسی کیفیت کی دلیل ہے۔
[1] بلوغ الأماني (۳/ ۱۶۷)