کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 74
یہی صورت صرف عمرہ کرنے والوں کے لیے بوقتِ احرام ’’لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ بِالْعُمْرَۃِ‘‘ کہنے اور بوقتِ حجِ مفرد ’’لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ بِالْحَجِّ‘‘ کہنے اور حجِ قِران کے وقت ’’لَبَّیکَ اَللّٰہُمَّ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ‘‘ کہنے کی بھی ہے۔ اور حج کی طرح قربانی کرتے وقت ’’بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُمَّ ہٰذَا مِنْکَ وَلَکَ‘‘ کے بعد ’’اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ‘‘ کہہ سکتا ہے۔ یا ’’عَنْ فُلَانٍ‘‘ کہے، یا پھر جس کی طرف سے قربانی کر رہا ہو ’’عَنْ‘‘ کہہ کر اُس کا نام لے۔ جیسا کہ صحیح مسلم، ابو داود، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، بیہقی، دارمی اور مسند احمدمیں حضرت جابر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے پتا چلتا ہے۔[1] اس افطاری، روزہ، عمرہ، حج اور قربانی کے سوا کسی دوسرے عمل کی نیت کے الفاظ نہیں ملتے، لہٰذا حدود و دائرۂ شریعت کے اندر ہی رہنا چاہیے اور جہاں کچھ ثابت نہیں، وہاں اپنی طرف سے کچھ داخل کرنے پر مُصرّ نہیںرہنا چاہیے اور جہاں کچھ ثابت ہے، اس سے کوئی روکتا نہیں۔[2]
[1] ’’سوئے حرم‘‘ (ص: ۸۸ ۳ و ۴۰۰) تخریج نمبر (۴۱۸ و ۴۳۸) [2] فتاویٰ اہل حدیث حضرت العلامہ حافظ عبد اللہ محدّث روپڑی (۲/ ۵۵۳) بحوالہ فتاویٰ علمائے حدیث (۳/ ۹۴، ۹۵)