کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 72
عبرت ناک تھا کہ جی! نماز تو ہمیں آتی ہے، مگر نیت نہیں آتی، اس لیے کیا کریں؟ اندازہ فرمائیں کہ تعوّذ و تسمیہ اور ثنا و الحمد سے لے کر سلام پھیرنے تک نماز تو انھیں یاد ہوگئی، کیوں کہ یہ ہر مسلمان کے لیے ایک فطری بات ہے۔ ویسے بھی کلامِ الٰہی قرآنِ مجید یا احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یاد ہو جانا آسان ہے، مگر جو چیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور ہر دو، تین اور چار رکعتوں اور ہر نماز کے ساتھ بدلتی رہنے والی چیز ہے، اس کے الفاظ کو یاد کرنے سے عاجز ہیں۔ شاید یہی وجہ ہوگی کہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکاروں اور اپنے ماننے والے افرادِ امت کی آسانی کے پیشِ نظر اس نیت کے الفاظ کی تعلیم ہی نہیں دی۔ قارئینِ کرام! مروّجہ نیت کے بارے میں ہم نے یہ طویل تفصیلات اس لیے ذکر کر دی ہیں، تا کہ آپ سب کو زبان سے نیت کی شرعی حیثیت معلوم ہو جائے اور وہ لوگ جو نماز کی کسی رکعت کے آخری لمحات میں پہنچتے ہیں اور جماعت سے ملتے ہیں اور وقت کی قلت کے باوجود یہ مروجہ نیت دہرانا شروع کر دیتے ہیں ، حتیٰ کہ اس بے ثبوت فعل پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں نماز کی ایک رکعت کا اہم رکن ’’قیام‘‘ ان سے فوت ہو جاتا ہے، سورۃ الفاتحہ چھوٹ جاتی ہے اور ان کے اللہ اکبر کہنے سے پہلے ہی امام رکوع میں چلا جاتا ہے۔ انھوں نے ثنا و فاتحہ پڑھی نہیں، قراء ت سنی نہیں، قیام کیا نہیں اور یوں ایک رکعت فوت کر لی۔ اس طرح ثواب و فضیلت میں جو کمی واقع ہو جاتی ہے، وہ یقینا ایک بہت ہی بڑا خسارہ ہے، لہٰذا اس خود ساختہ عمل سے بچیے، تاکہ خسارے کی نوبت ہی نہ آئے۔ دوسرا پہلو: یہاں یہ بات آپ کو ذہن نشین کراتے جائیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے، بلکہ یہ کہہ کر سادہ دل لوگوں کو اس کا پابند کر لیا جاتا ہے کہ دل کی نیت کے ساتھ زبان کا اقرار