کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 68
گویند کہ بعد از زمانِ آنحضور و خلفاء راشدین ۔عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ مِنَ الصَّلَوَاتِ اَتَمِّہَا وَمِنَ التَّحِیَّاتِ اَکْمَلِہَا۔ پیدا شدہ باشد و رفعِ سنت نمید، و سیۂ آں کہ رافع سنت باشد۔‘‘ ’’کہتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں، حسنہ اور سیۂ ۔ حسنہ اُس نیک کام کو کہتے ہیں جو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دورِ میمون کے بعد ہوا ہو، لیکن اس کی وجہ سے کسی سنت پر زد نہ آتی ہو اور سیۂ وہ ہے جس کی وجہ سے کوئی سنت ترک ہوتی ہو۔‘‘ اس سے آگے حضرت مجدد رحمہ اللہ اپنا تحقیقی فیصلہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایں فقیر را ہیچ بدعتے از بدعت ہا حسنہ ونورانیہ مشاہدہ نمی کند و جز ظلمت و کدورت احساس مے نماید۔‘‘[1] ’’اس فقیر کو تو بدعاتِ حسنہ و نورانیہ کہلائی جانے والی بدعات میں سے کوئی ایک بھی بدعت ایسی نظر نہیں آئی جسے حسنہ کہا جا سکتا ہو۔‘‘ اس سے آگے چل کر موصوف رحمہ اللہ نے رافعِ سنت بدعات کی مثالیں بھی دی ہیں، جنھیں بعض مشائخ نے بدعاتِ حسنہ قرار دیا ہے، جبکہ دراصل وہ ایسی نہیں ہیں اور انہی میں سے ایک یہ زبان سے نیت کرنا بھی ہے، جس کے بارے میں انھوں نے کھلے کھلے الفاظ میں لکھ دیا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح یا ضعیف حدیث اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی ان کا ثبوت نہیں ملتا، جیسا کہ ان کے اپنے اصل فارسی الفاظ ہیں اور اُن کا ترجمہ ذکر کیا جا چکا ہے۔ غرض بدعت کے ساتھ حسنہ کا لفظ نصِ حدیث کے بھی خلاف ہے اور اہلِ علم و تحقیق بھی بدعت کے ساتھ حسنہ کا لفظ لگانے کو ایک حسین دھوکا یا جھانسا قرار دیتے ہیں۔
[1] مکتوباتِ مجدد الف ثانی دفتر اول (۳/ ۷۲، ۷۳) بحوالہ فتاویٰ علمائے حدیث (۳/ ۸۶)