کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 64
نیت بزبان بدعت باشد۔‘‘[1] ’’حالانکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ (زبان سے نیت کرنا) کسی صحیح یا ضعیف روایت میں ثابت نہیں ہے، ایسے ہی یہ بھی ثابت نہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعینِ عظام رحمہم اللہ زبان سے نیت کرتے ہوں، بلکہ وہ جب اقامت کہتے تو ساتھ ہی تکبیرِ تحریمہ کہہ دیتے تھے، لہٰذا زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔‘‘ علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ : صاحب القاموس علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ نے بھی نیت کو دل ہی کا فعل قرار دیا ہے۔[2] علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ : فیض الباری میں علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ نے بھی اس بات کو واشگاف الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ نیت زبان کا نہیں بلکہ دل کا فعل ہے۔ چنانچہ وہ ’’فیض الباري‘‘ (۱/ ۸) میں لکھتے ہیں: ’’فَالنِّیَّۃُ اَمْرٌ قَلْبِیٌّ‘‘ ’’پس نیت دل کا فعل ہے۔‘‘ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ : ماضی قریب کے معروف عالم مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بہشتی زیور کے دوسرے حصے میں نماز کی شرطیں بیان کرتے ہوئے مسئلہ نمبر11 یہ لکھا ہے کہ زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں، بلکہ دل میں اتنا سوچ لے کہ میں آج ظہر کی فرض نماز پڑھتی (یا پڑھتا) ہوں۔ اگر سنتیں ہوں تو ظہر کی سنت کا خیال کر کے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے تو نماز ہو جائے گی۔ یہ جو لمبی چوڑی نیت لوگوں میں مشہور ہے، اس کا
[1] بحوالہ فتاویٰ علمائے حدیث (۳/ ۸۶، ۸۷، ۸۹) ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ ایضاً۔ [2] سفرِ سعادت ترجمہ اردو (ص: ۲۳)