کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 60
الفاظ وارد ہوئے ہوں۔ وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جنھوں نے تعلیماتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری امانت و دیانت اور ذمے داری کے ساتھ آگے پہنچایا ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے تمام پہلوؤں کو اُمت کے سامنے پیش کر دیا ہے، انھوں نے بھی زبان کے ساتھ نیت کے الفاظ ادا کرنے کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا۔ خود خلفائے راشدین، عام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی ایک سے بھی ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ آپ حدیث و فقہ کی چاہے کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو کہیں سے بھی اس زبانی نیت کا ثبوت ہر گز نہیں ملے گا کہ یہ طریقہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفاء و صحابہ رضی اللہ عنہم یا ائمہ کرام رحمہم اللہ کا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ بعض فقہی کتب اور نماز کے بارے میں لکھی ہوئی کتابوں، کتابچوں اور رسالوں میں زبان سے نیت کرنے کا ذکر اور اس کے الفاظ مولفین یا ان سے پہلے والے علما و فقہا کے محض ذاتی خیالات ہیں، جو ایسے امور میں شرعی حجت نہیں ہیں، جن کا داعیہ خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مسعود میں موجود تھا اور کوئی امرِ مانع بھی نہیں تھا، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نہ کیا، نہ کرنے کا حکم دیا۔ علماو فقہائے احناف کے اقوال: زبانی نیت کے بارے میں کوئی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے مشائخ الاسلام امام نووی، ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہم اللہ پر ہی بس نہیں[1]، فقہا و علمائے احناف بھی دل کے ارادے کا نام ہی نیت بتاتے ہیں۔
[1] روضۃ الطالبین للنووي (۱/ ۲۲۴) مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ (۲۲/ ۲۱۷۔ ۲۵۵) زاد المعاد (۱/ ۲۰۱)