کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 57
تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں آنکھیں بند رکھیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو تشہد میں اپنی انگشتِ شہادت کی طرف دیکھتے تھے۔ پھر آگے چار احادیث بیان کی ہیں اور ان سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنکھیں کھلی رکھنے پر استدلال کرتے ہوئے خود ہی بتایا ہے کہ ان احادیث سے استدلال کرنا محلِ نظر ہے، لہٰذا ان کے ذکر سے ہم صرفِ نظر کر رہے ہیں۔ البتہ آگے انھوں نے لکھا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز میں آنکھیں کھلی رکھنے پر وہ احادیث دلالت کرتی ہیں، جن میں سے ایک صلاۃ الکسوف سے متعلق ہے، جس میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا منظر دیکھا تو انگور کا گچھا توڑنے کے لیے دستِ مبارک آگے بڑھایا اور آگ دیکھی اور جہنم میں وہ عورت دیکھی، جس نے بلی کو بھوکے پیاسے مار دیا تھا۔ ایسے ہی اس حدیث سے بھی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنکھیں کھلی رکھنے کا پتا چلتا ہے، جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کو اپنے آگے سے نہیں گزرنے دیا۔ نیز نماز کے دوران ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام کہنے والوں کو اشارے سے جواب دینا بھی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آنکھیں بند نہیں رکھتے تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جدھر سلام کہنے والا ہوتا اُھر ہی جوابی اشارہ فرماتے تھے۔ ایسے ہی نماز میں شیطان کے سامنے آجانے والی حدیث میں مذکور ہے کہ وہ آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو گلے سے پکڑ کر اتنا دبایا کہ اس کے منہ سے جھاگ بہہ نکلی، جس کی ٹھنڈک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک پر محسوس فرمائی تو یہ رؤیتِ عین تھی۔ ایسی ہی کئی دیگر احادیث کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں آنکھیں بند کر کے نہیں رکھا کرتے تھے۔ پھر لکھا ہے کہ فقہا کا نماز میں آنکھیں بند رکھنے کے مکروہ یا غیر مکروہ ہونے میں اختلاف ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ اور بعض دیگر اہلِ علم نے مکروہ کہا ہے اور بتایا ہے کہ آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا یہود کا فعل ہے۔