کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 53
’’میں نے دیکھا کہ غزوۂ بدر کے دن ہم میں سے کوئی بھی نہیں جاگ رہا تھا، سب سوئے ہوئے تھے سوائے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کو سُترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے اور صبح ہونے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعائیں کرتے رہے۔‘‘[1] 5-ستون: یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمہ بن اَکوع رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجدِ نبوی میں آتا تو وہ مصحف کے ساتھ والے ستون کے پاس نماز پڑھتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کوشش کر کے اس ستون کے پاس نماز پڑھتے ہیں ، (اس کی وجہ کیا ہے؟) تو انھوں نے جواب دیا: ’’میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوشش کر کے اس ستون کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے۔‘‘[2] 6-ٹوپی: سُترے کے طور پر ٹوپی یا پگڑی رکھ لینا بھی صحیح ہے، کیوں کہ سفیان بن عیینہ کا بیان ہے: ’’میں نے شریک رحمہ اللہ کو دیکھا کہ ایک جنازے کے موقع پر انھوں نے عصر کی نماز پڑھاتے وقت اپنے سامنے اپنی ٹوپی رکھ لی۔‘‘[3] درخت، ستون یا عصا کہاں ہو؟ ستون یا عصا وغیرہ کا سُترہ ہو تو وہ عین سامنے نہ ہو، بلکہ تھوڑا سا دائیں یا بائیں جانب ہو یا بالفاظِ دیگر عصا ناک کے سامنے نہ آئے، بلکہ دائیں یا بائیں کندھے کے سامنے ہو، کیوں کہ بعض اہلِ علم نے اسی انداز کو اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
[1] سنن النسائي بحوالہ فتح الباري (۱/ ۵۸۰) [2] صحیح البخاري (۱/ ۵۷۷) صحیح مسلم (۲/ ۴/ ۲۲۵، ۲۲۶) [3] صحیح أبي داوٗد (۱/ ۱۳۴) شرح السنۃ (۲/ ۲۵۱)