کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 447
شارح مشکوٰۃ علامہ عبیداللہ رحمانی لکھتے ہیں کہ جن روایات میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا ذکر آیا ہے، اگرچہ ان میں سے ہر ایک پر کلام کیا گیا ہے، مگر وہ کلام ایسانھیں کہ ان احادیث پر موضوع یعنی من گھڑت ہونے کا حکم لگایا جا سکے۔ اس لیے ان (روایات) سے امام کے لیے (بلا التزام) فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا جواز یا استحباب ثابت ہونے میں کوئی شبہہ نہیں۔ 3- تیسری صورت ہے اجتماعی دعا کرنا، یعنی امام اور مقتدی سب ہاتھ اٹھائے ہوئے ہوں، امام بلند آواز سے دعا کرتاجائے اور مقتدی آمین آمین کہتے جائیں۔ یہ انداز اگر التزام کے ساتھ نہ ہو، بلکہ بلا التزام کبھی کبھی ایسا کر لیا جائے تو کثیر محقّقین نے اسے جائز قرار دیا ہے، جس کے جواز کے بارے میں متعدد روایات ملتی ہیں، جنھیں برِ صغیر کے محدّثِ کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے ترمذی شریف کی شرح تحفۃ الاحوذی میں نقل کیا ہے اور کئی صفحات پرمشتمل تحقیقی بحث میں اس موضوع کی وضاحت کی ہے۔[1] 4- اس مروّجہ طرزِ دعا کی چوتھی صورت یہ ہے کہ اس اجتماعی انداز پر مداومت اور ہمیشگی کی جائے، پانچوں وقت کے فرضوں کے بعد بلا ناغہ امام بلند آواز سے دعا کرتا جائے اور مقتدی آمین کہتے جائیں۔ دعا کی اس ہیئت کذائی کو ضروری سمجھ کر اس کا التزام کیا جائے تو اس کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملتا۔ اگرمروّجہ ہیئت پر عہدِ نبوت میں عمل ہو رہا ہوتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا جو جمِ غفیر تھا، ان میں سے کسی سے یہ بات ضرور منقول ہوتی۔ محرّک و دواعیِ نقل موجود ہونے اور مانع کے مرتفع ہونے کے
[1] سنن الترمذي مع تحفۃ الأحوذي۔ [2] تحفۃ الأحوذي (۲/ ۲۰۱ مدنی)