کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 444
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ (کی انگلیوں) پر تسبیح کر رہے تھے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دائیں ہاتھ پر ہی تسبیح کرنا چاہیے۔ اگرچہ پہلی مطلق حدیث کے پیشِ نظر اہلِ علم دونوں ہاتھوں پر ہی تسبیح کو جائز قرار دیتے ہیں، لیکن کبار علمانے اس دوسری حدیث کی بنا پر صرف دائیں ہاتھ پر تسبیح کرنے کو افضل قرار دیا ہے۔ تسبیح کا استعمال: اب رہی یہ بات کہ اذکار و وظائف کی گنتی کے لیے جو ’’تسبیح‘‘ استعمال کی جاتی ہے، اس کا استعمال کیسا ہے؟عہدِ نبوت، دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور قرونِ اولیٰ میں اس کی کوئی نظیر ملتی ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کسی صحیح حدیث میں ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیح کا استعمال فرمایا ہو، بلکہ ہمیشہ اپنی انگلیوں کے پوروں پر تسبیح کرتے رہے اور اس کی وجہ بھی بیان فرمائی: (( وَاعْقِدْنَ بِالْاَنَامِلِ فَاِنَّہُنَّ مَسْئُوْلَاتٌ مُسْتَنْطَقَاتٌ )) ’’کیوں کہ انگلیوں کے یہ پورے سوال کیے جائیں گے تو انھیں بولنے کی طاقت دی جائے گی تو یہ بول کر گواہی دیں گے۔‘‘ یہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ابو داود و ترمذی، مسند احمد اور مستدرک حاکم میں مذکور ہے۔ اسے امام حاکم اور امام ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے اور امام نووی و ابن حجر نے اس کی تحسین کی ہے۔[1] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مذکور ہے: (( کَانَ یُسَبِّحُ بِالْحَصٰی )) لیکن اس کی سند ’’واہ جدًّا‘‘ ہے۔[2]
[1] صحیح مسلم في المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ، مشکاۃ (۱/ ۳۰۵) المرعاۃ (۲/ ۵۴۶) [2] سنن الترمذي مع التحفۃ (۹/ ۵۹۔ ۴۵۸ مدني) [3] الضعیفۃ (۱/ ۱۱۲)