کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 44
اور وہ کس طرف مڑے تو استقبالِ قبلہ لازم نہیں ہوگا، نہ دورانِ نماز اتنی سوچ بچار کا موقع ہوتا ہے اور نہ عموماً ان سواریوں میں جگہ کی اتنی وافر گنجایش ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں بھی قرآن کے اُن الفاظ میں وارد حکم سے فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے جن میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ﴾ [البقرۃ: ۲۸۶] ’’اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ علاوہ ازیں اژدہام کی شکل میں تو علمائے احناف نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بلااستقبال اور بلا قیام نماز پڑھ سکتا ہے۔ مثلاً اژدہام اتنا ہو کہ مڑنا ممکن نہ ہو، جیسا کہ عموماً ان سواریوں میں ہوتا ہے اور نہ باہر نکل کر نماز کی ادائیگی کا موقع ہو تو بلا استقبال بھی جائز ہے۔ چنانچہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں مولانا مفتی عزیر الرحمن صاحب عثمانی لکھتے ہیں: ’’اگر فی الحقیقت ہجوم ایں قدر باشد کہ حرکتِ رکوع و سجود ممکن نیست و نیز بر صلوٰۃ خارج از ریل قادر نیست، بلا استقبال و بلا قیام ادا کنند۔‘‘[1] ’’اگر واقعی ہجوم اتنا ہو کہ رکوع و سجود کی حرکت ممکن ہو نہ ریل سے باہر نکل کر نماز ادا کرنا ممکن ہو تو بلا استقبالِ قبلہ اور بلا قیام نماز ادا کریں۔‘‘ ایسی صورت میں یوں نماز ادا کرنے کے جواز کا مولانا عثمانی صاحب کا یہ فتویٰ نقل کر کے ’’جدید فقہی مسائل‘‘ کے مؤلف نے اپنی طرف سے جو لکھا ہے کہ احتیاطاً اعادہ کر لینا چاہیے، بظاہر اس احتیاط کی کوئی دلیل نہیں اور نہ اعادے کی ضرورت ہے۔ یہ تفصیل تو ریل گاڑی اور بس کے بارے میں ہے، جبکہ کشتی، اسٹیمر، بحری جہاز اور ہوائی جہاز وغیرہ میں استقبالِ قبلہ کا حکم بھی یہی ہوگا، جو بس اور گاڑی میں ہے۔ [2]
[1] فتاویٰ دار العلوم (۲/ ۱۴۶) بحوالہ جدید فقہی مسائل (ص: ۴۳) [2] اس کی تفصیل ’’نیل الأوطار‘‘ (۱/ ۲/ ۱۴۲، ۱۴۳) ’’جدید فقہی مسائل‘‘ (ص ۴۳۔ ۴۵) ’’صفۃ صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم للألباني‘‘ (ص: ۳۵۔ ۳۷) میں دیکھی جا سکتی ہے۔