کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 430
ان سب طریقوں سے نماز کی بروقت ادائیگی اور جماعت کی اہمیت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ گھمسان کی جنگ اور دست بدست لڑائی میں نماز؟ گھمسان کی جنگ اور دست بدست لڑائی کی شکل میں اگر نماز باجماعت ممکن نہ ہوتو سورۃ البقرہ کی آیت (۲۳۹) میں ارشادِ الٰہی اور صحیح بخاری و مسلم میں مذکور احادیث کی رو سے پیدل یا سوار، قبلہ رو ہو کر یا جدھر بھی منہ ہو، ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر ہی نماز پڑھ لے، اور رکوع و سجود کے لیے صرف اشارے سے کام لے، البتہ رکوع کی نسبت سجدے کے لیے اشارہ کرتے وقت کچھ زیادہ جھکے۔[1] انتہائی لاچاری اور مجبوری میں نماز: انتہائی لاچاری و مجبوری کی بعض حالتوں میں نماز کو مؤخّر کرنا بھی جائز ہے۔ جیساکہ غزوۂ خندق کے موقع پر نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج غروب ہونے کے بعد پہلے نمازِ عصر اور پھر مغرب پڑھی تھی۔ یہ بات صحیح بخاری شریف میں مذکور ہے۔[2] تعاقب کرنے والے اور تعاقب کیے جانے والے کی نماز: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احزاب سے واپس لوٹے تو ہمیں حکم فرمایا: (( لَا یُصَلِّیَنَّ اَحَدًا الْعَصْرَ اِلَّا فِیْ بَنِیْ قُرَیْظَۃَ )) [3] ’’تم سب لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ بنی قریظہ کی بستی میں جا کر نماز پڑھو۔‘‘ اب بعض لوگوں کو راستے ہی میں نمازِ عصر کا وقت ہو گیا تو ان میں سے بعض
[1] المرعاۃ (۳/ ۳۲۶) [2] فقہ السنۃ (۱/ ۲۸۱) نیل الأوطار (۲/ ۳/ ۳۲۲) المغني لابن قدامۃ (۲/ ۳۳۹۔ ۳۴۰) حوالہ جات مذکورہ بالا۔ [3] دیکھیں: المغني (۲/ ۳۴۱۔ ۳۴۲)