کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 41
کی حدیث قرار دیا گیا ہے۔ اُن شواہد میں سے ایک دارقطنی و بیہقی، معجم طبرانی اور مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔[1] شدید خوف اور مجبوری و بیماری کی حالت میں: آدمی کسی شدید خوف و خطرہ، انتہائی مجبوری و لاچاری یا پھر کسی بیماری میں مبتلا ہو، اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ قبلہ کس طرف ہے، حسبِ موقع جس طرف بھی ممکن ہو، اسی طرف رُخ کر کے نماز پڑھ لے تو اس کی وہ نماز صحیح ہوگی۔ ایسی صورت کے لیے خود قرآنِ کریم میں ارشاد الٰہی ہے: ﴿ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴾ [البقرۃ: ۲۳۹] ’’اگر تم خوف زدہ ہو تو پیدل یا سوار جس طرح ممکن ہو نماز پڑھ لو، اور جب تم حالتِ امن میں ہو تو پھر اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح یاد کرنے (نماز پڑھنے) کا طریقہ اس نے تمھیں سکھلایا ہے، جو تم پہلے نہیں جانتے تھے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مُسْتَقْبِلِی الْقِبْلَۃِ اَوْ غَیْرَ مُسْتَقْبِلِیْہَا‘‘[2] ’’تم قبلہ رو ہو یا نہ ہو۔‘‘ صحیح بخاری میں حضرت نافع رحمہ اللہ کا قول ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ تفسیر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔ گویا اس حالتِ خوف میں استقبالِ قبلہ کے سلسلے
[1] الإرواء (۲/ ۳۲۳۔ ۳۲۴) [2] صحیح البخاري (۸/ ۱۹۹) صحیح ترمذي، رقم الحدیث (۲۱۵۸) صحیح نسائي، رقم الحدیث (۲۴۵۶) ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲)