کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 401
اگر اس سے زیادہ مدت کا سفر ہوگا تو پھر پوری نماز پڑھیں گے۔‘‘ بخاری شریف کی کتاب المغازی میں یہ وضاحت بھی ہے کہ یہ قیام مکہ مکرمہ میں تھا۔[1] اسی واقعے کے بارے میں ابو داود میں فتح مکہ کا ذکربھی ہے، مگر اس میں سترہ دن مذکور ہیں۔ ابن حبان میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ ابو داود کی ایک دوسری حدیث میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اٹھارہ دن ذکر کیے ہیں۔ ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ و بیہقی میں پندرہ دن کی روایت بھی ہے۔ امام بیہقی نے ان سب روایات کو جمع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے انیس دن کہا ہے، اس نے مکہ میں داخل ہونے اور روانہ ہونے والے دو دن بھی شمار کیے ہیں اور جس نے سترہ دن کہا ہے، اس نے یہ دو دن حذف کر دیے ہیں۔ جس نے اٹھارہ دن کہا ہے، اس نے داخلے اور روانگی کے دو دنوں کو ایک دن شمار کیا ہے اور پندرہ والے راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس نے گمان کیا کہ شاید اصل روایت سترہ دن کی ہے تو اس سے دو دن داخلے اور روانگی کے نکال کر پندرہ دن بیان کر دیے ہیں۔ اس وضاحت کے ساتھ ہی انھوں نے امام نووی رحمہ اللہ کے پندرہ دنوں والی روایت کو ضعیف قرار دینے پر عدمِ موافقت کا اظہار کیا ہے اور پھر لکھا ہے کہ اکثر اور صحیح تر احادیث میں انیس دن کا ذکر آیا ہے، لہٰذا یہی سب سے راجح ترین بات ہے۔[2] مسند عبد بن حمید میں بیس دن کا ذکر بھی ہے۔ امام شوکانی نے اسے سند کے اعتبار سے صحیح مگر صحیح روایات کے مخالف ہونے کی بنا پر ’’شاذ‘‘ قرار دیا ہے۔[3]
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۲/ ۵۶۵) [2] فتح الباري (۲/ ۵۶۵) [3] صحیح البخاري (۲/ ۵۶۱) الفتح الرباني (۵/ ۱۱۰)