کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 40
جنگل یا بلادِ کفر و شرک یا اندھیرا ہونے کی صورت میں:
اگر کوئی شخص کسی ایسے مقام پر ہو، جہاں ہر سُو جنگل ہی جنگل، یا پھر اُسے بادل یا اندھیرے کی وجہ سے، یا بلادِ کفر و شرک میں ہونے کی وجہ سے قبلہ کا پتا نہ چل رہا ہو کہ کس جانب ہے؟ تو ایسے شخص کو چاہیے کہ امکانی حد تک قبلہ و جہتِ قبلہ کی جستجو و تلاش کرے اور بھرپور کوشش کے بعد اپنے گمانِ غالب کے مطابق کسی ایک طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے۔ اگر نماز سے فارغ ہو جانے کے بعد پتا بھی چل گیا کہ اس نے غلط سمت پر نماز پڑھی ہے، اس کے باوجود اس کی نماز صحیح ہوگی اور صحیح سمت معلوم ہو جانے کے باوجود اس کو نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’ہم ایک سفر میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور وہ ایک انتہائی تاریک رات تھی۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ قبلہ کس طرف ہے، لہٰذا ہر شخص نے جدھر چاہا، اُدھر ہی منہ کر کے نماز پڑھ لی۔ جب صبح ہوئی تو ہم نے یہ سارا ماجرا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ سنایا، اس پر (سورۃ البقرہ کی آیت: ۱۱۵) نازل ہو گئی (جس میں ارشادِ الٰہی ہے:) ’’تم جدھر بھی منہ کرو، اللہ (کا قبلہ) اُدھر ہی ہے۔‘‘
مسند طیالسی میں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا ماجرا سن کر فرمایا: (( مَضَتْ صَلَاتُکُمْ )) ’’تمھاری نماز ہو گئی‘‘ پھر یہ آیت ﴿ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰه ۚ ﴾ [البقرۃ: ۱۱۵] نازل ہوگئی۔ [1]
اس حدیث کی سند پر کچھ کلام ہے، لیکن شواہد و روایات کی بنا پر اسے حسن درجہ
[1] إرواء الغلیل (۲/ ۳۲۳)