کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 399
پڑھی جا سکتی ہے اور کتنے دنوں سے زیادہ قیام کرنے کا ارادہ ہو تو پھر پوری نماز پڑھی جائے گی؟ اس سلسلے میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد سے اس کی تعیین نہیں ہوتی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک کسی سفر میں رہتے، نمازِ قصر ہی پڑھتے رہتے تھے اور کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی نہیں فرمایا کہ جو شخص اس سے زیادہ کسی سفر میں رہے تو وہ قصر نہ کرے۔ فتح مکہ اور حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل کئی دن تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے اور قصر کرتے رہے، جیسا کہ صحیح بخاری، مسلم، نسائی، بیہقی اور مسند احمد میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم مِنَ الْمَدِیْنَۃِ اِلٰی مَکَّۃَ فَکَانَ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ حَتّٰی رَجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ )) ’’ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل (ہر نماز کی) دو دو رکعتیں پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ہم سب مدینہ منورہ واپس لوٹ آئے۔‘‘ حضرت یحییٰ بن ابی اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: (( اَقَمْتُمْ بِمَکَّۃَ شَیْئًا؟ فَقَالَ: اَقَمْنَا بِہَا عَشْرًا )) ’’آپ لوگ مکہ مکرمہ میں کتنے دن ٹھہرے؟ تو انھوں نے جواب دیا: ہم وہاں دس دن ٹھہرے تھے۔‘‘ صحیح مسلم شریف کے الفاظ میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ یہ سفر حج کے لیے تھا اور بیہقی کی روایت میں یہ صراحت بھی پائی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے نمازِ مغرب کے ہر نماز کی دو دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے۔[1]
[1] صحیح البخاري (۲/ ۵۶۹) إرواء الغلیل (۳/ ۲۰) [2] فتح الباري (۲/ ۵۶۹) نیل الأوطار (۲/ ۳/ ۲۰۷) [3] الفقہ الإسلامي (۲/ ۳۲۱، الفقہ علٰی المذاہب الأربعۃ (۱/ ۴۷۵)