کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 391
قصر نہ کرے۔ پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین بھی کوئی ایک متفقہ رائے نہیں۔ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف سفروں کے پیشِ نظر مختلف آرا ظاہر فرمائی ہیں۔ امام ابن المنذر رحمہ اللہ اور دیگر کبار محدّثین و علمانے اس سلسلے میں صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین، ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین رحمہم اللہ کے بیس سے زیادہ اقوال نقل کیے ہیں۔ احناف کا مسلک: ایک قول کے مطابق احناف کا مسلک یہ ہے کہ تین مراحل (بہتّر میل) سے کم مسافت ہو تو قصر نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہما سے بھی اسی کی روایات ملتی ہیں، اور ’’البحر الرائق‘‘ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے قصر کی مسافت چوبیس فرسنگ منقول ہے، جبکہ ایک فرسنگ تین میل کاہوتا ہے۔ نیز ’’البحر الرائق‘‘ ہی میں امام صاحب رحمہ اللہ سے دوسری روایت یہ ہے کہ وہ سفر پیدل یا اونٹ پر تین دنوں میں طے ہو۔ ان کا استدلال بخاری شریف میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس حدیث سے ہے، جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَۃُ (مَسِیْرَۃَ) ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ اِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ )) ’’کوئی عورت کسی محرم کے بغیر وہ سفر نہ کرے جس کی مسافت تین دن میں طے ہو۔‘‘ جمہور ائمہ کا مسلک: باقی تینوں ائمہ اور فقہاء اصحاب الحدیث کے نزدیک قصر کی مسافت دو مرحلے یا اڑتالیس میل ہے۔ ان کا استدلال نسائی شریف کے سوا معروف کتبِ صحاحِ ستہ (صحیحین و سننِ اربعہ) میں مذکور اس حدیث سے ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( لَا یَحِلُّ لِاِمْرَأَۃٍ تُؤْٔمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُسَافِرَ مَسِیْرَۃَ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ اِلَّا وَمَعَہَا ذُوْمَحْرَمٍ ))
[1] نیل الأوطار (۲/ ۳/ ۲۰۴) و صححہ الألباني في الإرواء (۳/ ۹) [2] إرواء الغلیل ۳/ ۱۳)