کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 39
استقبالِ قبلہ کا انداز: یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ وہ نمازی جو مسجدِ حرام میں کعبہ شریف کے عین سامنے ہو اور اُسے دیکھ رہا ہو، اس کے لیے تو عین کعبہ شریف کی طرف رُخ کر کے نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ علامہ ابن رشد نے ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں اس بات پر تمام علمائے اُمت کا اتفاق نقل کیا ہے۔ [1] اب رہا وہ شخص جو کعبہ شریف کے سامنے نہ ہو اور نہ اسے دیکھ رہا ہو، بلکہ وہ حدودِ حرم سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں ہو تو اس کے لیے عین کعبہ شریف کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں، بلکہ دُور دراز کے مسلمانوں کے لیے صرف سمتِ کعبہ یا کعبہ کی جہت کا ہونا ہی کافی ہے، جس پر امام بغوی رحمہ اللہ نے شرح السنۃمیں ایک تواس ارشادِ باری تعالیٰ سے استدلال کیا ہے: ﴿وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ﴾ [البقرۃ: ۱۴۴] ’’اور جہاں کہیں بھی تم ہو، اُسی (مسجدِ حرام) کی طرف منہ (کر کے نماز پڑھا) کرو۔‘‘ جبکہ اس پر بعض احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، جن میں سے ایک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَۃٌ )) [2] ’’مشرق و مغرب کے مابین قبلہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو متعدد سندوں سے مروی ہونے کی بنا پر محدّثینِ کرام نے صحیح قرار دیا ہے۔[3]
[1] بدایۃ المجتہد (۱/ ۱۵۷) [2] صحیح الترمذي، رقم الحدیث (۲۸۳) ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۰۱۱) صحیح الجامع، رقم الحدیث (۵۵۸۴) شرح السنۃ (۲/ ۳۲۷) و الإرواء (۲/ ۳۲۴۔ ۳۲۵) [3] شرح السنۃ (۲/ ۳۲۷) إرواء الغلیل (۲/ ۳۲۴۔ ۳۲۵)