کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 389
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِہَا عَلَیْکُمْ )) [1] ’’یہ صدقہ ہے جو اللہ نے تم پر کیا ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’صدقہ‘‘ قرار دیا ہے۔ صدقہ کے ظاہر سے قصر کا رخصت ہونا ہی معلوم ہوتا ہے نہ کہ واجب ہونا، اور ایسی ہی کئی دوسری دلیلیں بھی ہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے طرفین کے دلائل ذکر کرنے کے بعد وجوب کے راجح ہونے کے میلان کا اظہار کیا اور لکھا ہے کہ قصر ہی افضل ہے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ قصر کیا کرتے تھے اور یہ بات بعید از قیاس ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر افضل کو ترک کر کے مفضول پر عمل کرتے رہے ہوں۔[2] جن روایات میں قصر کے بجائے تکمیل کا ذکر ہے، وہ ضعیف ہیں۔[3] یہ ایک خالص علمی نوعیت کی بحث ہے اور طرفین کے پاس ہی دلائل بھی ہیں۔ اب اسے واجب سمجھیں یا رخصت قرار دیں، کچھ بھی ہو، لیکن یہ بات طے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفر میں ہمیشہ قصر پڑھا کرتے تھے، لہٰذا ہمیں بھی قصر ہی پڑھنی چاہیے کہ یہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے قصر نہیں کرتا تو اس کی نمازبھی درست ہے اور اعادے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔[4] ہاں سفر کے دوران میں قصر کے بجائے پوری نماز پڑھنے والے اکثر لوگوں پر تعجب ضرور ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور افضل کو ترک کرتے ہیں، بلکہ