کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 38
استقبالِ قبلہ: نماز کا آغاز کرتے وقت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رُو ہو جایا کرتے تھے۔ یہ چیز قطعی و حتمی ہے اور تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری اُمتِ اسلامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز کے لیے نمازی کا قبلہ رُو ہونا ضروری ہے، کیوں کہ قرآنِ کریم میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کی شکل میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ  فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا  فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ [البقرۃ: ۱۴۴] ’’(اے نبی!) آپ کا بار بار آسمان کی طرف رُخ اٹھانا ہم نے دیکھ لیا ہے۔ لو ہم آپ کو اس قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ اور آپ مسجدِ حرام (یعنی کعبہ شریف) کی طرف اپنا رُخ پھیر لیں۔‘‘ یہاں تک تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کی شکل میں ارشادِ الٰہی تھا، جبکہ اسی آیت میں آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور پوری اُمتِ قرآن سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ﴾ [البقرۃ: ۱۴۴] ’’اور جہاں کہیں بھی تم ہو اسی (مسجدِ حرام) کی طرف رُخ (کر کے نماز پڑھا) کرو!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ جب تم نماز پڑھنے لگو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو اور پھر قبلہ رو ہو جاؤ اور تکبیرِ تحریمہ کہو۔‘‘ [1]
[1] صحیح البخاري (۱/ ۵۰۲ تعلیقاً) اور ’’کتاب الإسئتذان‘‘ میں موصولاً۔ صحیح مسلم (۲/ ۴/ ۱۰۶۔ ۱۰۷)