کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 379
ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے اور دوسری شکل وہ ہے جب نمازی کو رکعتوں کی تعداد میں شک ہو جائے۔ یہ ظاہریہ اور علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کا مسلک ہے۔ 9- سجدۂ سہو کے مقام و موقع کی تعیین کے سلسلے میں معروف محقّق و مجتہد امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سب سے عمدہ بات تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے تقاضے کے مطابق ہی سلام سے پہلے یا بعد سجدۂ سہو کیا جائے۔ جن شکلوں میں سلام سے پہلے سجدۂ سہو کرنے کی قید ہے، وہاں پہلے اور جہاں بعد کی ہے وہاں بعد میں کیا جائے اور جہاں ایسی کوئی قید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل سے ثابت نہیں، وہاںکمی یا زیادتی ہر شکل میں ہی نمازی کو اختیار ہے کہ پہلے کرے یا بعد میں، کیوں کہ صحیح مسلم شریف میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مطلق ہے: (( اِذَا زَادَ الرَّجُلُ اَوْ نَقَصَ فَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ )) [1] ’’جب انسان اپنی نماز میں کمی یا زیادتی کر جائے تو اسے چاہیے کہ سہو کے دو سجدے کر لے۔‘‘ 10- ’’المرعاۃ شرح المشکاۃ‘‘ میں امام ابو داود ظاہری کا مسلک یہ لکھا گیا ہے کہ سجدۂ سہو صرف انہی چند شکلوں میں ہے جن میں احادیث سے ثابت ہے، دیگر کسی بھول پر سجدۂ سہو نہیں۔ علامہ عبیداللہ رحمانی نے سب سے راجح مسلک اسے قرار دیا ہے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ کر لے یا بعد میں۔ بہرحال یہ سب اقوال محض اوّلیت و افضلیت کے بارے میں ہیں، البتہ جواز کی حد تک اس بات پر سب ائمہ کا اتفاق ہے کہ سجدۂ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کر لے یا بعد میں، ادا ہو جائے گا۔[2]