کتاب: مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی - صفحہ 376
4- سہو کی چوتھی شکل یہ ہے کہ کسی کو اس بات میں شک ہو جائے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ اس شکل کا ذکر صحیح بخاری و مسلم، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد، ابن حبان، مستدرک حاکم اور بیہقی میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کی رکعتوں کی تعداد بھول جائے اور اسے شک ہوجائے کہ نہیں معلوم اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو اسے چاہیے کہ اپنا شک دُور کرے اور یقینی بات پر بنیاد رکھ کر نماز پوری کرے، پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے۔ اس طرح اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہوں گی تو (ان دو سجدوں کی وجہ سے) وہ شفع (جفت یا جوڑی) ہو جائیں گی اور اگراس نے پوری نما ز ہی پڑھی ہو گی تو یہ (دو سجدے) شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث بن جائیں گے۔[1] ایک دوسری حدیث میں شک زائل اور یقین حاصل کرنے کا طریقہ بھی لکھا ہے۔ چنانچہ ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد اور بیہقی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میں سے کسی شخص کو نماز میں شک ہو جائے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو، تو اسے چاہیے کہ اپنی ایک ہی رکعت سمجھے اور جب اسے یہ شک ہو جائے کہ اس نے دو رکعتیں پڑھی ہیں یا تین، تو اسے چاہیے کہ اپنی دو ہی رکعتیں سمجھے، اور جب اسے یہ شک ہو جائے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی یا چار تو اسے چاہیے کہ اپنی تین ہی رکعتیں سمجھے، پھر نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کر لے۔[2] ان دو نوں حدیثوں کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ تین یا چار، دو یا تین اور دو یا ایک میں شک ہو جائے، مگر اُن دونوں میں سے کوئی ایک پہلو ظنِ غالب سے راجح ہو تو پھر
[1] صحیح البخاري (۳/ ۹۶۔ ۹۹) سنن الترمذي (۲/ ۴۲۰۔ ۴۲۹) مشکاۃ (۳/ ۳۳۔ ۳۷) الفتح الرباني (۴/ ۲۴۰۔ ۱۴۵) [2] صحیح البخاري (۳/ ۹۳۔ ۹۴) مشکاۃ المصابیح (۳/ ۳۰) سنن الترمذي (۲/ ۴۰۹۔ ۴۱۰) الفتح الرباني (۴/ ۱۵۳) [3] صحیح البخاري (۳/ ۹۲) مشکاۃ (۳/ ۳۸) الفتح الرباني (۴/ ۱۵۰۔ ۱۵۱) نیل الأوطار (۲/ ۳/ ۱۱۹) شرح السنۃ (۳/ ۲۸۹) [4] مشکاۃ المصابیح (۳/ ۳۹) وصححہ الألباني (۱/ ۳۲۲) الفتح الرباني (۴/ ۱۵۲)